مسلم خاتون کا حجاب زبردستی اتارنے پر کاؤنٹی کو ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر ادا کرنے کا حکم

عابدہ شائف الخادی

ایک مسلمان عورت نے عدالت سے وہ مقدمہ جیت لیا ہے جس میں فوٹو کھینچنے کے لیے اسے مرد جیلر کے سامنے زبردستی حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ فیڈرل عدالت نے رامسے کاؤنٹی کے خلاف دائر مقدمے کے تصفیئے میں خاتون کو ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

عابدہ شائف الخادی نے زبردستی حجاب اتارے جانے کے بعد رامسے کاؤنٹی کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ جیل بھیجے جانے کی صورت میں آئندہ اس علاقے کی کسی بھی مسلمان خاتون کے مذہبی عقائد کی خلاف ورزی نہ جائے۔

57 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ اسے اگست 2013 میں رامسے کاؤنٹی کی جیل میں جانے کا تجربہ ہوا جو ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ اور خفت و شرمندگی کا تجربہ تھا۔

انہوں نے منی سوٹا میں کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ آئندہ کسی اور مسلم خاتون کو ایسی صورت حال سے گزرنا پڑے۔

الخادی پر ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کا جرم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اصل میں ہوا یہ کہ جون 2013 میں میں نے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ لیکن، انہیں ایک ایمرجینسی میں اپنی بیٹی کو اسپتال لے جانا پڑا۔

عدالت میں حاضر نہ ہونے پر جج نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔

انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا تو رامسے کاؤنٹی کی جیل کے عہدے داروں نے مردوں کے سامنے اسے اپنا حجاب اور عبایا اتارنے کا حکم دیا، جب انہوں نے اعتراض کیا تو انہیں زبردستی ایک کوٹھری میں ڈال کر جیلر کے سامنے حجاب اتارا گیا۔

الخادی کا کہنا تھا کہ حجاب اتارے جانے کے بعد حکام نے وعدہ کیا کہ ان کی تصویر شائع نہیں کی جائے گی اور بعد میں جیل کے عہدے داروں نے انہیں حجاب کی بجائے سر ڈھاپنے کے لیے بستر کی ایک چادر دے دی۔

انہوں نے بتایا کہ جیل والوں نے یہ ساری کارروائی ذلت آمیز انداز میں کی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جیل حکام نے بحث کرنے کے الزام میں انہیں 23 گھنٹوں تک ایک کوٹھڑی میں محبوس رکھا۔ جیل حکام نے وعدے کے باوجود ان کی تصویر تک عام لوگوں کو رسائی دی۔ انہوں نے بھی ایک ویب سائٹ سے اپنی تصویر حاصل کی۔

اس معاملے پر انہوں نے کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کے توسط سے منی سوٹا کے انسانی حقوق کے محکمے میں رپورٹ کی۔ لیکن، ان کی درخواست مسترد کر دی گئی، جس کے بعد انہوں نے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔

انہیں ایک ایسا وکیل مل گیا جس نے معاوضے کے بغیر مقدمہ لڑنے کی حامی بھر لی۔

اس مقدمے کی وجہ سے کاؤنٹی نے 2014 میں اپنی پالیسی تبدیل کر کے جیل حکام کو ہدایت کی کہ مسلم خواتین کو کسی مرد کے سامنے حجاب اتارنے کے لیے نہ کہا جائے۔ اور جیل میں قیام کے دوران اسے سر ڈھانپنے کے لیے جیل کا حجاب مہیا کیا جائے۔

سٹار ٹربیون میں شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ جج نے جس تصفیئے کی منظوری دی ہے اس میں الخادی کی تصویر ڈیلیٹ کرنے اور جیل حکام کو خواتین کے ساتھ ان کے مذہبی عقائد کے مطابق برتاؤ کرنے کی تربیت دینے کا حکم بھی شامل ہے۔