خیبرپختونخوا: میڈیکل ٹیسٹ کے دوران طلبہ 'بلیو ٹوتھ' کے ذریعے نقل کیسے کر رہے تھے؟

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں میڈیکل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ میں 'بلیو ٹوتھ' کے ذریعے نقل کے معاملے نے محکمہ تعلیم کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

دس ستمبر کو ہونے والے امتحانات میں اس جدید طریقے کے ذریعے نقل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔

اتوار کو ہونے والے امتحانات کے دوران بعض طلبہ سے خفیہ آلات برآمد ہوئے تھے جو بلیو ٹوتھ ڈیوائسز کے ساتھ منسلک تھے۔ ان میں نظر سے پوشیدہ رہنے والے ایئر پلگ اور پین بھی شامل ہیں۔

سینئر صحافی اور ماہر تعلیم ڈاکٹر یوسف علی جو دس ستمبر کو ہونے والے امتحانات میں ایک امتحانی مرکز کے نگران تھے کہا کہ بلیو ٹوتھ ڈیوائس کا استعمال حکومت کے لیے ایک چیلنج تو ہے، لیکن اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر امتحانی مرکز کا نگراں چاہے تو کسی بھی طالبِ علم کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ غیر قانونی طریقہ استعمال کرے۔

ملک بھر کے سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے 10 ستمبر کو ہونے والے ایم ڈی کیٹ امتحان میں صوبے سے لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار طلبہ نے حصہ لیا تھا۔

میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے ٹیسٹنگ کے ادارے 'ایٹا' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز ایوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نقل کے لیے 'بلیو ٹوتھ' کے ذریعے خفیہ آلہ استعمال کرنے کے الزام میں درجنوں طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلیو ٹوتھ کے نئے ڈیوائس کے متعارف اور استعمال کرنے سے اب امتحانات کے طریقۂ کار کو شفاف اور بامقصد بنانا ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

اُن کے بقول اگر حکومت اور محکمہ تعلیم کے اعلی عہدے دار مخلص ہوں تو پھر اس طریقے کو بہت آسانی سے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر یوسف علی نے کہا کہ والدین پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے سے روکیں۔

ڈاکٹر یوسف علی نے بتایا کہ قلم یا کارڈ کی شکل میں اس بلیو ٹوتھ ڈیوائسز کا استعمال نہایت آسان ہے مگر اسے برآمد کرنا امتحانی عملے کے لیے ناممکن نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب 10 ستمبر کو امتحانی مراکز میں طلبہ سے یہ ڈیوائسز برآمد ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ وہ امتحانی مرکز کے قریب اپنے سہولت کاروں سے مدد حاصل کر رہے تھے۔

ڈاکٹر یوسف علی نے بتایا کہ بلیو ٹوتھ کے نئے ڈیوائس کا استعمال سب سے پہلے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک میں ہوا تھا اور پھر وہاں سے پشاور سمیت کئی اور شہروں تک جا پہنچا۔

اُن کا کہنا تھا کہ کئی والدین نے اپنے بچوں کو یہ ڈیوائس فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ لہذٰا والدین پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔

یوسف علی نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بالخصوص ایشیا کے تعلیمی اداروں اور امتحانات میں کامیابی کے لیے نقل کا سلسلہ عرصۂ دراز سے چلا آ رہا ہے۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی آنے سے نقل کے طریقوں میں بھی جدت آ رہی ہے۔

اُن کے بقول اس سلسلے کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ امتحانی مراکز کے اطراف انٹرنیٹ سروسز بند رکھی جائیں جب کہ امتحانی مراکز کی حدود میں موبائل فون لانے پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔