تجزیہ کاروں نے کرونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں میں مدد دینے کے لیے، امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 80 لاکھ ڈالر کی اضافی امداد کو سراہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پاکستان کے وسائل محدود ہیں، جب کہ پہلے ہی ملک کی ایک کثیر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے میں، کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ لاک ڈائون کے نتیجے میں ملکی کاروبار بند پڑا ہے، جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جس کے سنگین اثرات نمودار ہوں گے۔
امریکی اعانت سے متعلق سوال پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، ممتاز ماہر معاشیات اور فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا ہے کہ اس سے پاکستان کی مجموعی معیشت پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ یہ رقم ایک مخصوص شعبے میں ہی استعمال ہو سکے گی۔ اور اس میں سے تین ملین کے خرچے سے موبائل یونٹ قائم کئے جائیں گے۔ اس امداد میں سے، ایک ملین جدید لیبارٹری بنانے پر خرچ کیا جائے گا۔
اسی طرح، انھوں نے کہا کہ بقیہ رقم صحت کے شعبے ہی میں خرچ ہوگی، جبکہ پاکستان کو اس وقت معاشی مدد کی ضرورت ہے، جسکی شرح نمو عالمی بنک کی پیشگوئی کے مطابق منفی رہے گی۔ ایوب مہر نے کہا کہ ایسا پاکستان کی تاریخ میں 1949ء کے بعد پہلی بار ہو گا۔
تاہم، ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار اور اب مڈایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ محدود رقم ہے، جبکہ پاکستان کی پہلے ہی سے کمزور معیشت کو بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔
اس کے مقابلے میں، انھوں نے کہا کہ IMF نے ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر کی رقم دس سال کے لئے دی ہے، جس پر کوئی سود بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ اس امداد سے پاکستان کو اتنی مدد ضرور ملے گی کہ ان کاموں کے لیے درکار وہ رقم بچ جائے گی جو کرونا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے جدید آلات کے حصول پر خرچ آتی۔
قبل ازیں، امریکہ نے پاکستان کے ہیلتھ سیکٹر کو ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی مدد فراہم کی ہے۔
کرونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں مدد دینے لئے، امریکہ نے جمعے کے روز پاکستان کو آٹھ ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ اس بات کا اعلان کرتے ہوئے، پاکستان میں تعینات امریکی سفیر، پال جونز نے کہا کہ نئی فنڈنگ ملک میں لباریٹریز قائم کرنے پر استعمال ہوگی، تاکہ ٹیسٹ کے ذریعے کرونا کے پھیلاو کو روکا جا سکے۔
امریکی سفیر نے مزید کہا کہ اس امداد کا ایک حصہ افغان پناہ گزیں کیمپوں میں زندگیاں بچانے کی سرگرمیوں پر بھی خرچ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں تیس لاکھ کے قریب افغان پناہ گزیں مقیم ہیں، جن میں قانونی تارکین وطن کے علاوہ غیر قانونی پناہ گزیں بھی شامل ہیں جو معاش کی تلاش میں آئے ہیں۔
سفیر پال جونز نے کہا کہ امریکہ ان اقدامات کا بڑا حامی ہے جن پر اس ہفتے کے اوائل میں G-20 کے ممالک نے اتفاق کیا تھا، جن کے تحت پاکستان کو بڑا رلیف ملے گا۔