پاکستان میں واحد صوبہ سندھ ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کی یا اسکی اتحادی حکومت نہیں ہے۔ کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کا مسئلہ ہو یا اٹھارویں ترمیم کا معاملہ، وفاقی اور سندھ حکومت ایک پیج پر نہیں دکھائی دیتیں۔
اس کا وسیع پیمانے پر مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب کرونا کی وبا پھیلی۔ لاک ڈاؤن وفاقی حکومت نے بھی کیا، لیکن سندھ میں اس پر بہت زیادہ سختی سے عمل درآمد کرایا گیا اور اب بھی صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہے۔ وفاقی حکومت کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور معیشت سخت لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی خاص طور پر وہ مزدور طبقہ جو روزانہ کی بنیاد پر کماتا اور اپنا گھر چلاتا ہے۔
وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم کو بھی اپنی کارکردگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے اور اسکے وزرا کہہ چکے ہیں کہ کرونا کی وبا سے نمٹنے کی راہ میں یہ ترمیم ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کا موقف مختلف ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، حکومت سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ان کی حکومت بھی سمجھتی ہے کہ روز کے دیہاڑی داروں کے لئے مشکل ہے، ''اور ہم بتدریج صوبے کو کھول رہے ہیں''۔
لیکن، انہوں نے کہا کہ ہم صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور صوبے میں جتنے مریضوں کے علاج معالجے کی سہولت موجود ہے اگر کرونا کے مریضوں کی تعداد اس کی گنجائش سے پچاس فیصد سے بڑھی تو لوگوں کی جانوں کے تحفظ کے لئے پھر مکمل لاک ڈاؤن کر دیں گے۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کے اس سلسلے میں اعلان شدہ قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہی اور آئندہ بھی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اکییس رمضان کے جلوسوں کے سلسلے میں جن لوگوں نے خلاف ورزیاں کی ہیں، ان کے خلاف ایف آئی آر لکھی گئی ہیں اور اب تک دو سو سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سندھ کے وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس سلسلے میں عملی دشواریاں درپیش ہیں، جیسے کہ منی بس مالکان کا معاملہ ہے، جو کہتے ہیں کہ تیرہ چودہ مسافروں کی گنجائش والی بس میں اگر وہ ایک ایک سیٹ چھوڑ کر مسافروں کو بٹھائیں تو پھر وہ کمائیں گے کیا؟
انہوں نے کہا کہ ''مسائل بہت ہیں اور حل کم۔ اس لئے، صوبے کو بتدریج اور مرحلہ وار صوبے کو کھولا جا رہا ہے''۔
اٹھارویں ترمیم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت کے تحفظات ہیں تو بات ہو سکتی ہے۔ لیکن، یہ ترمیم بہت ضروری ہے اور اسے مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ صوبے مضبوط ہوں گے تو وفاق بھی مضبوط ہو گا۔