پوری دنیا جب کہ کرونا وائرس کی وبا کی ہولناکیوں کی لپیٹ میں ہے، عام زندگی کے سب ہی شعبے اس سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ان میں ذرائع ابلاغ کا شعبہ بھی شامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ براعظم ایشیا میں جس کی آبادی تقریباً 3 ارب 40 کروڑ افراد پر مشتمل ہے,خبررساں اداروں کو اس بحران سے متعلق حقائق تک رسائی میں سخت دشواریوں کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک جانب لاک ڈاؤن کی وجہ سے صحافی اپنے ذرائع سے براہ راست رابطے نہیں کر سکتے، وہاں دوسری جانب سرکاری عہدیدار ان کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگا رہے ہیں اور مبہم معلومات مہیا کر رہے ہیں۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ صحافیوں کو پابند سلاسل کیے جانے اور حتٰی کہ گمشدگی کے بھی خطرات لاحق ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار رالف جینیکس نے تائیوان سے اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ایشیا کے مختلف ملکوں میں صحافیوں کو جن رکاوٹوں کا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ آمرانہ حکومتوں، خاص کر چین جیسے ملک کا میڈیا پر آہنی کنڑول ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز سے منسلک ایک اعلی عہدیدار نے شکایت کی کہ چینی حکام نے کئی ایک صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ صحافیوں کی انٹرنیشنل فیڈریشن کا کہنا ہے کہ چین میں تین سٹیزن جرنلسٹ لاپتہ بھی ہو چکے ہیں۔
علاقے کے دوسرے ممالک مثلاً بھارت اور فلپائن کسی حد تک اظہار کی آزادی کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن وہ عوامی صحت کے تحفظ کی آڑ میں سخت ہنگامی اقدامات کو چیلنج کیا جانا پسند نہیں کرتے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس کی خبریں دینے والے صحافیوں کو نئے انداز سے ہراساں کیے جانے کی صورت حال کا سامنا ہے۔ تنظیم نے بھارت کی ایک کہنہ مشق ہیلتھ رپورٹر ودیا کرشنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب اس بات کو میڈیا میں اجاگر کیا گیا کہ حکومت ہیلتھ ورکرز کے لیے حفاظتی سامان مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے تو اسے عہدیداروں نے جعلی خبر سے تعبیر کیا اور جس کے بعد آن لائن ہراساں کئے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
فلپائن میں جہاں کرونا وائرس کی عالمگیر وبا سے پہلے ہی صدر نے میڈیا کے خلاف مخالفانہ انداز اختیار کر رکھا تھا، کانگریس نے 24 مارچ کو ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے کوویڈ نائٹین کے بارے میں حکام کے مطابق غلط معلومات پھیلانے کو تعزیری جرم قرار دیا گیا ہے۔
فلپائن میں صحافیوں کی قومی انجمن نے حکومت کو حاصل اس اختیار کی مخالفت کی ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس تمام پس منظر میں ایشیا کے بہت سے ملکوں میں کرونا وائرس کی کوریج آسانی سے دستیاب ہونے والے اعداد و شمار کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ مثلاً یہ کہ کتنی اموات ہو گئیں اور کتنے نئے لوگ وائرس کا شکار ہوئے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار غلط بھی تو ہو سکتے ہیں؟