کرونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں تباہ کاریاں اب بھی جاری ہیں اور اقتصادی معاشرتی زندگی کو اس نے درہم برہم کر رکھا ہے۔ اب بہت سے ممالک کئی مہینوں کے بعد لاک ڈاون میں نرمی کر رہے ہیں تاکہ معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے اور معمول کی زندگی کی طرف بڑھنے کا تجربہ کیا جا سکے۔ ان ملکوں میں امریکہ بھی شامل ہے جہاں دھیرے دھیرے ریاستوں کی بنیاد پر بندشوں کو کم کیا جا رہا ہے۔
تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عالگیر وبا نے جن اقتصادی شعبوں کا گویا گلا گھونٹ دیا ہے، ان میں خود صحت کی صنعت بھی شامل ہے، جس کے کاندھوں پر اس بحران کے دوران انسانی زندگیوں کو بچانے کے ذمہ داری آن پڑی تھی۔
ماہرین کا تجزیہ ہے کہ صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ کارکنوں کو بھی بہت بعد تک اس کے اقتصادی اثرات بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ صورت حال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ بہت سے امریکی اب دوسری علامات کے لئے ایمرجنیسی روم میں جانے سے گریزاں ہیں۔
بہت سے ڈاکٹرز جو کوویڈ 19 کا علاج کر رہے تھے اور صحت کا بعض دوسرا عملہ بھی بیروزگاری کا شکار ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسپتالوں میں عام مریضوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار کیرولین پریسٹی نے ایسے ہی ایک ڈاکٹر مائیک ویلسن کا تذکرہ کیا ہے جو نیویارک میں کوویڈ 19 کی وبا کے عروج پر مریضوں کے علاج کے لئے ٹیکساس سے نیویارک سٹی آ گئے تھے، لیکن جب شہر میں مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی تو وہ نیویارک سٹی سے، جہاں وہ فیلڈ اسپتال میں دن رات کام کر رہے تھے، ٹیکساس واپس آئے، تو وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
ڈاکٹر ویلسن کہتے ہیں کہ اب مریضوں میں کمی ہو گئی ہے۔ لہذا انھیں اسٹاف کی ضرورت نہیں ہے اور ملک بھر میں نرسوں اور ڈاکٹروں کو فارغ کیا گیا ہے یا بغیر تنخواہ کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اپریل میں صحت کی دیکھ بھال کی صنعت نے 14 لاکھ کارکنوں کو فارغ کر دیا۔ ہوا یوں کہ جب کرونا کی عالمی وبا پھیلی تو کوویڈ 19 کے مریضوں کی جگہ بنانے کے لئے اسپتالوں نے ایسی منافع بخش سرجریز کا سلسلہ روک دیا جن کی فوری ضرورت نہیں ہوتی۔
چھوٹے اسپتالوں کی مالی حالت پہلے ہی خراب تھی، اب ان کا اور بھی برا حال ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایمرجینسی روم میں معمول کے داخلے والے مریضوں کی تعداد ڈرامائی طور پر گر گئی جس کی وجہ یہ تھی کہ ایسے اسپتالوں میں جانے سے مریض گریز کرنے لگے، جہاں کوویڈ 19 کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔
طبی ماہرین کے مطابق ایمرجینسی روم سے مریضوں کے اجتناب اور آمدن میں کمی ہونے کی وجہ سے اسپتالوں نے اسٹاف میں کٹوتی کر دی، بعض دیہی اسپتالوں میں تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایمرجینسی روم میں آپریشن کے لئے ایک یا دو ڈاکٹرز ہی دستیاب ہوتے ہیں۔
ایک طبی ماہر ڈاکٹر کے کے موڈی اس جانب توجہ دلاتی ہیں کہ امریکہ میں اس مرتبہ اسپتال مالی اعتبار سے شدید مالی بحران کی لپیٹ میں ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ طبی شعبہ اور اسپتال ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئے اور اس کی بنیاد انسان دوستی پر ہونی چاہئے۔
یاد رہے کہ کرونا وائرس کے امدادی پیکج کی دو ٹریلین ڈالر کی رقم میں سے سو ارب ڈالر اسپتالوں کے امداد کے لئے مختص کئے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود موجودہ حالات میں بہت سے ڈاکٹروں کی تشویش اپنی جگہ برقرار ہے۔