بھارت میں کرونا وائرس کے سبب ایک ماہ کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد ہفتے کے روز معیشت کا پہیہ آہستگی کے ساتھ چلنا شروع ہوا ہے، ایسے میں جب شہروں کے محلوں اور دیہی علاقوں میں اسٹور اور چھوٹی دوکانیں کھلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
نامہ نگار انجنا پسریچا نے ایک رہورٹ میں بتایا ہے کہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس اقدام سے خوردہ فروشی کے شعبے میں کچھ ریلیف ملے گا جو کوئی ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو کاروبار فراہم کرتا ہے اور ملک میں زراعت کے شعبے کے بعد دوسرا سب بڑا روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے۔
یہ ملک میں معمول کی زندگی کی بحالی کی جانب دوسرا قدم ہے۔ قبل ازیں اس ہفتے کے اوائل میں بھارت نے زراعت سے متعلق کاروبار اور ان علاقوں میں کچھ کارخانے کھولنے کی اجازت دی تھی جو کرونا وائرس سے کم متاثر ہوئے ہیں۔
بھارت کے ایک ممتاز ماہر معاشیات نارنولیا فنانس کے شلیندر کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کی بحالی کا آغاز تو کرنا ہی تھا کیونکہ کوئی بھی ملک غیر معینہ مدت تک اپنی معیشت بند رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے معاشی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سال کی پہلی دو سہہ ماہیوں میں تو معاشی شرح نمو منفی رہنے کی توقع ہے اور بھارتی معیشت جہاں اس سال فروری میں تھی وہاں شاید اگلے سال فروری تک پہنچ سکے، بشرطیکہ آنے والے دنوں میں حالات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ آئے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی میڈیم اور اسمال انٹرپرائز جو ملک میں تیس فیصد روزگار فراہم کرتی ہے بند ہے اور کئی کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ امید افزا بات یہ ہے کہ ملک میں ربیع کی فصل اچھی ہوئی ہے اور اگر مون سون کا موسم اچھا رہا تو امید کی جا رہی ہے کہ خریف کی فصل بھی اچھی ہوگی۔ اور چونکہ زراعت ملکی معیشت کا تیس فیصد حصہ فراہم کرتی ہے۔ اسلئے یہ معیشت کے واسطے اچھی خبر ہوگی۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ ابھی سوائے ان صنعتوں کے جو کھانے پینے کا سامان بناتی ہیں، بالکل بند ہے، جسکے سبب بے روزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ اس لئے، قطعیت کے ساتھ یہ کہنا کہ آنے والے دنوں میں معاشی صورت حال کس سمت جائے گی شاید کسی کے لئے بھی ممکن نہ ہو۔
اس سوال کے جواب میں کہ ملک کو بتدریج کھولنے کے اقدامات اور وائرس کے پھیلنے کے خوف کے ماحول میں عام آدمی کس جانب زیادہ مائل نظر آتا ہے، انہوں نے کہا کے یہ بھوک یا بیماری کے خوف میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ ہے جو بلا شبہ بہت پیچیدہ ہے اور بیچینی پیدا کرتا ہے۔ لیکن، بہرحال بھوک اولین اور فوری نوعیت کا معاملہ ہے اور شاید بیماری کے خوف پر غالب آتا نظر آ رہا ہے۔