بھارت میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ علاقے بھی لپیٹ میں آ گئے ہیں جو اب تک نسبتاً محفوظ خیال کیے جا رہے تھے۔ ماہرین نے انتباہ کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ دوبارہ لاک ڈاون کرنا پڑے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون سے وبا کا زور ٹوٹ سکتا ہے، مگر اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔
بھارت میں صحت کے ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ نئے متاثرہ علاقوں میں کیسز بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح بھارت کے بہت سے صوبوں میں یہ وبا مزید تیزی سے پھیلے گی۔
ماہرین کے اندازے کے مطابق، پچھلے پندرہ دنوں میں یہ تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ ان کا خیال ہے تقریباً ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ملک میں ٹیسٹنگ بھی کم ہو رہی ہے اور اگر اس میں اضافہ ہوا تو کیسز کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
کیمونٹی میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر کپل یادو نے کہا کہ ہر صورت میں یہ طئے ہے کہ کیسز کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ اصل تعداد سے بہت کم ہے۔ یہ وائرس مغربی ملکوں کی طرح یہ اپنی انتہا کو پہنچے گا۔
بھارت ایک وسیع ملک ہے اور مختلف مقامات پر یہ مختلف اوقات میں زور پکڑتا ہے۔
پہلے نئی دہلی، صوبہ مہاراشٹر اور تامل ناڈو میں زیادہ تعداد میں کیسز دیکھنے میں آئے اور اب بنگلور اور بہار کے صوبوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بہار کی آبادی دس کروڑ سے زیادہ ہے اور اس کا شمار بھارت کے غریب ترین صوبوں میں ہوتا ہے جہاں طبی سہولتیں بھی ناکافی ہیں۔
متعدی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس انتہائی چھوت دار ہے اور گنجان آباد غریب آبادیوں میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان علاقوں میں اس سے بچنے کی بنیادی احتیاطوں پر عمل کرنا نا ممکن ہے۔ بھارت میں دس ہفتوں کے سخت لاک ڈاون سے اس کی رفتار سست پڑی، مگر یہ طوفان تھما نہیں۔ پھر جون سے اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
حکومت نے کچھ علاقوں میں کاروبار کو کھولا ہے، مگر بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے لوگ بے یقینی کا شکار ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ دوکانیں دوبارہ نہ بند کرنا پڑیں۔ نئی دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں اب تک میٹرو اور ٹرین سروس بند ہے۔ سکول اور کالج بھی بند ہیں۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں۔ گوا جیسے سیاحتی مقام میں لاک ڈاون جاری ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہیں۔
کیمونٹی میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر کپل یادو کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کا مقصد صرف اتنا ہی رہا کہ پبلک ہیلتھ سسٹم کو تیاری کے لیے مہلت مل جائے۔ لیکن اگر ان پانچ مہینوں میں بھی تیاری نامکمل رہی تو اگلا ہفتہ بھی ایسا ہی گذرے گا جیسا کہ یہ ہفتہ۔
سب سے زیادہ تشویش اس بات کی ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے اور اگر یہاں کرونا کی وبا کا حملہ ہوا تو پھر نہ صرف کیسز کی تعداد بڑھے گی، بلکہ اموات میں بھی اضافہ ہو گا۔
نئی دہلی میں پبلک ہیلتھ فاونڈیشن کے صدر کے سری ناتھ ریڈی کہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں وائرس پھیلا تو چیلنجز بڑھ جائیں گے اور ایسے حالات میں صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہاں تک اس کے علاج کی سہولتیں بہم ہو جائیں۔ دوسری طرف بہار جیسے غریب صوبوں کی دیہی آبادی کے لیے سخت خطرہ ہے ۔ تاہم، ریڈی اس بارے میں پر امید ہیں کہ شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں کرونا سست رفتاری سے پھیلے گا۔
اخبار ٹائمز آف انڈیا نے انتباہ کیا ہے کہ وبا کے ساتھ معیشت کی تباہی بھی ملک کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہو گی۔ لاک ڈاون کرنے اور اٹھانے سے بھی لوگوں تک منفی پیغام پہنچ رہا ہے۔ صحت عامہ کے ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ لاک ڈاون کی ضرورت اور اہمیت سے عوام کو بہتر طور پر آگاہ نہیں کیا گیا۔
متعدی امراض کے ماہر جیکب جان کہتے ہیں کہ عوام کا خیال ہے کہ لاک ڈاون سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ لاک ڈاون اور دوسری احتیاطوں کے باوجود یہ دشمن زندہ اور طاقت ور ہے۔
کرونا وائرس کی اس جنگ میں بھارت کے لیے صرف یہ بات تسلی کا باعث ہے کہ مغربی ملکوں کی نسبت یہاں اموات کی شرح کم ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل اس وائرس کا مقابلہ کر کے صحت یاب ہو جاتی ہے اور اسی لیے ملک کی مجموعی شرح اموات نسبتاً کم رہی ہے۔