کرونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں دنیا بھر کے ممالک بدستور شدید کساد بازاری کی لپیٹ میں آ رہے ہیں، جبکہ بہت بڑی تعداد میں جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، امریکی معیشت پر اس کے منفی اثرات کے نتیجے میں بے روزگاری کا شکار ہونے والوں کی مجموعی تعداد گزشتہ چار ہفتوں کے دوران دو کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، جو 1930 کے عشرے کی تاریخی کساد بازاری کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی معیشت، امریکہ میں صرف گزشتہ ہفتے مزید باون لاکھ کارکنوں نے بے روزگاری کے معاوضے کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں۔
یہ اعداد و شمار امریکہ کے محکمہ محنت نے جمعرات کو جاری کئے۔ ماہرین کے مطابق صورتِ حال روز بروز سنگین ہوتی نظر آرہی ہے اور اب مزید کمپنیاں ایسے ملازمین کو بھی جو وائٹ کالر کارکنوں کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں بغیر تنخواہ کے گھر بھیج رہی ہیں۔
اندیشہ ہے کہ آنے والے ہفتوں میں جب معیشت پر کرونا وائرس کے اثرات پوری طرح ظاہر ہوں گے تو بے روزگار افراد کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت اس سال کی پہلی سہ ماہی میں دس اعشاریہ آٹھ فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یہ سب سے بڑی گراوٹ ہے۔
اس بارے میں ماہرین تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب یہ پتا نہیں ہے کہ امریکہ میں کاروباری سرگرمیاں کب تک بند رہیں گی یا محدود پیمانے پر ہی کام کرتی رہیں گی، اندیشہ ہے کہ ہفتوں تک لوگ اپنی ملازمتوں سے محروم ہوتے رہیں گے اور ایسے کارکنوں کی تعداد کئی کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لئے نامہ نگار کین بریڈی مائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جتنی تیز رفتاری سے کارکن اپنی ملازمتوں سے محروم ہو رہے ہیں، امریکہ کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
بعض امریکی ماہرینِ اقتصادیات پیش گوئی کر رہے ہیں کہ امریکہ کے تقریباً ساڑھے سولہ کروڑ کارکنوں میں سے ڈھائی سے چار کروڑ تک کی تعداد میں کارکنوں کو جولائی تک نوکری سے نکالا جا سکتا ہے۔ بڑی تعداد میں کلیمز کے بوجھ کی وجہ سے نیویارک سمیت بعض ریاستوں میں ویب سائٹ کریش کر گئی ہیں۔
امریکہ بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوے ہزار اسٹور بند ہوگئے ہیں جو ملک کا لگ بھگ نصف بنتے ہیں۔ ریٹیل اسٹورز کے علاوہ ریستورانوں، ورزش گاہوں اور ٹریول کے کاروبار خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن۔ کارکنوں کی چھانٹیاں منیو فیکچرنگ، ٹرانسپورٹیشن اور دوسرے شعبوں میں بھی بہت زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
تین بڑی ریٹیل کمپنیوں یعنی میسیز، کوہل اور گیپ نے مجموعی طور پر دو لاکھ نوے ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا ہے، جبکہ دوسری بڑی ریٹیل کمپنیوں نے ہزاروں کو بغیر تنخواہوں کے گھر بھیج دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ ملک کے کچھ حصوں کو جہاں نسبتا کرونا وائرس کے کم کیسز ہوئے ہیں، یکم مئی تک کاروباری سرگرمیوں کے لئے کھول دیا جائے۔ تاہم، ملک کی بعض بڑی کارپوریشنوں کے سربراہوں نے انتباہ کیا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے کرونا وائرس کے لئے لوگوں کی مزید جانچ ضروری ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کام پر واپسی سے قبل کارکنوں کو یہ وائرس لاحق نہیں ہے۔
ادھر ٹرمپ کے بہت سے قدامت پسند حامی امریکی معیشت کو دوبارہ چالو کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ بہرحال، ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ یہ سب کب اور کیسے ممکن ہوگا؟