ماہرین کا کہناہے کہ مستقبل کی کاروں میں ایک ایسا کمپیوٹر نصب ہوگا جو سڑک کے حالات اور ڈرائیور کے طرزعمل پر نظر رکھے گا اورجیسے ہی اسے یہ محسوس ہوگا کہ کوئی حادثہ ہونے جارہاہے، وہ تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے گا
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ سائنس دان کئی برسوں سے ایک ایسی کار پر کام کررہے ہیں جو حادثات سے کلی طورپر محفوظ ہوگی ۔
سڑک پر زیادہ تر حادثات ڈرائیور کی غلطی یا لاپرواہی سے ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ مستقبل کی کاروں میں ایک ایسا کمپیوٹر نصب ہوگا جو سڑک کے حالات اور ڈرائیور کے طرزعمل پر نظر رکھے گا اورجیسے ہی اسے یہ محسوس ہوگا کہ کوئی حادثہ ہونے جارہاہے، وہ تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔اور گاڑی کو خطرے سے نکالنے کے بعد اس کا کنٹرول دوبارہ ڈرائیور کودے دے گا۔ماہرین کا کہناہے کہ گاڑی میں نصب کمپیوٹر کی حیثیت ایک متبادل ، مگر ہوشیار اور زیرک ڈرائیور کی سی ہوگی۔
چند مہلک بیماریوں کے بعد سڑک کے حادثات دنیا بھر میں ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ ہیں، جن میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سڑک کے حادثات میں 90 فی صد ہلاکتیں ان ممالک میں ہوتی ہیں جن کا شمار کم اور متوسط آمدنی کے ممالک میں کیاجاتا ہے۔
ٹریفک حادثات میں سب سے زیادہ افراد بھارت میں ہلاک ہوتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق بھارت میں ہر گھنٹے میں کم ازکم 13 افراد سڑک حادثوں میں مارے جاتے ہیں ۔ یہ تعداد سالانہ ایک لاکھ 15 ہزار تک ہے۔ جب کہ چین جو آبادی کے لحاظ سے بھارت سے بڑا ملک ہے وہاں ٹریفک حادثوں میں ہرسال 90 ہزار کے لگ بھگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی آبادی اور سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھنے سے جان لیوا حادثات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے مگرٹریفک کے مسائل پر 2007ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملکی سطح پر حادثات کے ریکارڈ کا کوئی منظم ادارہ موجود نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ ٹریفک کے تین فی صد سے بھی کم حادثات کی پولیس کو اطلاح دی جاتی ہے۔لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کی شرح آبادی کے لحاظ سے فی ہزار تقریباً دو ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اور خصوصاً امریکہ میں کسی بھی آٹو کمپنی کو اپنی گاڑیاں سڑک پر لانے سے قبل سیکیورٹی کے سخت امتحان سے گذرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں زیر استعمال اکثر کاروں میں چار سے چھ ایئر بیگ نصب ہوتے ہیں جو حادثے کی صور ت میں فوراً کھل کرمسافروں کو مہلک زخموں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں کاروں میں اس طرح کا میٹریل استعمال کیا جاتا ہے جو حادثے کی صورت میں کم مہلک ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہاں سڑک کے حادثات اموات کی پانچویں بڑی وجہ ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ موسلادھار بارش، خراب موسمی حالات، تیزرفتاری، سڑک کی خرابی اور ڈرائیور کی غفلت حادثات کا باعث بنتی ہے اور ایک ایسی کارکے ذریعے ، جو حادثے کے امکان کا پیشگی اندازہ لگاکر روک جائے، زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
گاڑیوں کو حادثات سے محفوظ بنانے کے لیے ان دنوں جس ٹیکنالوجی پر تجربات کیے جارہے ہیں اسے وہیکل ٹو وہیکل یعنی وی ٹو وی کا نام دیا گیاہے۔ یہ کئی حصوں پر مشتمل ایک پیچیدہ نظام ہے۔ اس نظام کا ایک حصہ ایک مخصوص ریڈیو فریکونسی کے ذریعے اگلی گاڑی سے فاصلے کا تعین کرتا ہے۔ دوسرا حصہ جدید جی پی ایس کے ذریعے سڑک پر گاڑی کے درست مقام اور رفتار پر نظر رکھتا ہے۔ کئی سنسرز پر مبنی ایک اور حصہ یہ طے کرتا ہے کہ آیا گاڑی اپنی لین کے اندر ہے یا نہیں۔ یہ سارے نظام ایک گاڑی کے کمپیوٹر سے منسلک ہوتے ہیں۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر گاڑی ایک سیکنڈ میں 88 فٹ کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ بریک لگانے کے بعد گاڑی کو رکنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتاہے ۔ ماہرین کا کہناہے کہ 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والی گاڑی کو جب بریک لگائے جاتے ہیں تو رکتے رکتے وہ کم ازکم سوا سو فٹ آگے چلی جاتی ہے۔محفوظ سفر کے لیے ضروری ہے کہ دوگاڑیوں کے درمیان اتنا فاصلہ ضرور ہو کہ بریک لگانے پر وہ ٹکرانے سے پہلے ہی رک جائیں۔
وی ٹو وی گاڑیوں میں نصب نظام اپنی اگلی گاڑی سے محفوظ فاصلہ قائم رکھتا ہے۔ گاڑیوں کی رفتاروں میں کمی بیشی سے اگر یہ فاصلہ گھٹنے لگے اور ڈرائیور نوٹس نہ لے توکمپیوٹر کا خودکار نظام فوراً حرکت میں آکر گاڑی کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے اور رفتار کم کرکے فاصلہ بڑھا دیتا ہے۔اگر اگلی گاڑی اچانک رک جائے تو پچھلی گاڑی بھی خودکار طریقے سے فوراً کھڑی ہو جاتی ہ
امکانی حادثے سے بچانے کے لیے لین کے اندر کھنے کا نظام گاڑی کو اس وقت تک لین میں رکھتا ہے جب تک اسے تبدیل کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح لین تبدیل کرتے وقت سنسرز کا ایک اور نظام ڈرائیور کو یہ بتاتا ہے کہ آیا بلائنڈ سپاٹ میں کوئی گاڑی تو موجود نہیں ہے۔
یہ خود کار نظام اتنا مؤثر ہے کہ گوگل گذشتہ کچھ عرصے سے ریاست نیوڈا میں اپنی ایک کار پر تجربات کررہاہے۔کمپیوٹر اور خودکار آلات کی مدد سے یہ کار ڈرائیور کے بغیر چلتی ہے اور حال ہی میں گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کی تجرباتی کاریں مجموعی طورپر چارلاکھ 80 ہزار میل کا سفر طے کرچکی ہیں اور اس دوران کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔
اس وقت امریکہ کی سڑکوں پر جدید کمپیوٹر نظام سے لیس ہزاروں کاریں رواں دواں ہیں۔ مختلف ماڈلز کی یہ گاڑیاں جنرل موٹرز، واکس ویگن، اوڈی اور کئی ووسری کمپنیوں نے تیار کی ہیں۔ان کا کمپیوٹرائزڈ سسٹم حادثات کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے رہاہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ آئندہ ایک عشرے تک وہ ایسی گاڑیاں سڑک پر لے آئیں گے جو حادثات سے کلی طور پر محفوظ ہوگی۔
سڑک پر زیادہ تر حادثات ڈرائیور کی غلطی یا لاپرواہی سے ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ مستقبل کی کاروں میں ایک ایسا کمپیوٹر نصب ہوگا جو سڑک کے حالات اور ڈرائیور کے طرزعمل پر نظر رکھے گا اورجیسے ہی اسے یہ محسوس ہوگا کہ کوئی حادثہ ہونے جارہاہے، وہ تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔اور گاڑی کو خطرے سے نکالنے کے بعد اس کا کنٹرول دوبارہ ڈرائیور کودے دے گا۔ماہرین کا کہناہے کہ گاڑی میں نصب کمپیوٹر کی حیثیت ایک متبادل ، مگر ہوشیار اور زیرک ڈرائیور کی سی ہوگی۔
چند مہلک بیماریوں کے بعد سڑک کے حادثات دنیا بھر میں ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ ہیں، جن میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سڑک کے حادثات میں 90 فی صد ہلاکتیں ان ممالک میں ہوتی ہیں جن کا شمار کم اور متوسط آمدنی کے ممالک میں کیاجاتا ہے۔
پاکستان میں بھی آبادی اور سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھنے سے جان لیوا حادثات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے مگرٹریفک کے مسائل پر 2007ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملکی سطح پر حادثات کے ریکارڈ کا کوئی منظم ادارہ موجود نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ ٹریفک کے تین فی صد سے بھی کم حادثات کی پولیس کو اطلاح دی جاتی ہے۔لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کی شرح آبادی کے لحاظ سے فی ہزار تقریباً دو ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اور خصوصاً امریکہ میں کسی بھی آٹو کمپنی کو اپنی گاڑیاں سڑک پر لانے سے قبل سیکیورٹی کے سخت امتحان سے گذرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں زیر استعمال اکثر کاروں میں چار سے چھ ایئر بیگ نصب ہوتے ہیں جو حادثے کی صور ت میں فوراً کھل کرمسافروں کو مہلک زخموں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں کاروں میں اس طرح کا میٹریل استعمال کیا جاتا ہے جو حادثے کی صورت میں کم مہلک ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہاں سڑک کے حادثات اموات کی پانچویں بڑی وجہ ہیں۔
گاڑیوں کو حادثات سے محفوظ بنانے کے لیے ان دنوں جس ٹیکنالوجی پر تجربات کیے جارہے ہیں اسے وہیکل ٹو وہیکل یعنی وی ٹو وی کا نام دیا گیاہے۔ یہ کئی حصوں پر مشتمل ایک پیچیدہ نظام ہے۔ اس نظام کا ایک حصہ ایک مخصوص ریڈیو فریکونسی کے ذریعے اگلی گاڑی سے فاصلے کا تعین کرتا ہے۔ دوسرا حصہ جدید جی پی ایس کے ذریعے سڑک پر گاڑی کے درست مقام اور رفتار پر نظر رکھتا ہے۔ کئی سنسرز پر مبنی ایک اور حصہ یہ طے کرتا ہے کہ آیا گاڑی اپنی لین کے اندر ہے یا نہیں۔ یہ سارے نظام ایک گاڑی کے کمپیوٹر سے منسلک ہوتے ہیں۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر گاڑی ایک سیکنڈ میں 88 فٹ کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ بریک لگانے کے بعد گاڑی کو رکنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتاہے ۔ ماہرین کا کہناہے کہ 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والی گاڑی کو جب بریک لگائے جاتے ہیں تو رکتے رکتے وہ کم ازکم سوا سو فٹ آگے چلی جاتی ہے۔محفوظ سفر کے لیے ضروری ہے کہ دوگاڑیوں کے درمیان اتنا فاصلہ ضرور ہو کہ بریک لگانے پر وہ ٹکرانے سے پہلے ہی رک جائیں۔
وی ٹو وی گاڑیوں میں نصب نظام اپنی اگلی گاڑی سے محفوظ فاصلہ قائم رکھتا ہے۔ گاڑیوں کی رفتاروں میں کمی بیشی سے اگر یہ فاصلہ گھٹنے لگے اور ڈرائیور نوٹس نہ لے توکمپیوٹر کا خودکار نظام فوراً حرکت میں آکر گاڑی کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے اور رفتار کم کرکے فاصلہ بڑھا دیتا ہے۔اگر اگلی گاڑی اچانک رک جائے تو پچھلی گاڑی بھی خودکار طریقے سے فوراً کھڑی ہو جاتی ہ
امکانی حادثے سے بچانے کے لیے لین کے اندر کھنے کا نظام گاڑی کو اس وقت تک لین میں رکھتا ہے جب تک اسے تبدیل کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح لین تبدیل کرتے وقت سنسرز کا ایک اور نظام ڈرائیور کو یہ بتاتا ہے کہ آیا بلائنڈ سپاٹ میں کوئی گاڑی تو موجود نہیں ہے۔
یہ خود کار نظام اتنا مؤثر ہے کہ گوگل گذشتہ کچھ عرصے سے ریاست نیوڈا میں اپنی ایک کار پر تجربات کررہاہے۔کمپیوٹر اور خودکار آلات کی مدد سے یہ کار ڈرائیور کے بغیر چلتی ہے اور حال ہی میں گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کی تجرباتی کاریں مجموعی طورپر چارلاکھ 80 ہزار میل کا سفر طے کرچکی ہیں اور اس دوران کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔
اس وقت امریکہ کی سڑکوں پر جدید کمپیوٹر نظام سے لیس ہزاروں کاریں رواں دواں ہیں۔ مختلف ماڈلز کی یہ گاڑیاں جنرل موٹرز، واکس ویگن، اوڈی اور کئی ووسری کمپنیوں نے تیار کی ہیں۔ان کا کمپیوٹرائزڈ سسٹم حادثات کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے رہاہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ آئندہ ایک عشرے تک وہ ایسی گاڑیاں سڑک پر لے آئیں گے جو حادثات سے کلی طور پر محفوظ ہوگی۔