کیا 'آزادی کپ' کے بعد شائقینِ کرکٹ کی توقعات پوری ہوں گی؟

انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سیکورٹی کے ماہر ریگ ڈیکاسن بھی سیکورٹی کے انتظامات دیکھ کر تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔

ورلڈ الیون کے خلاف تین ٹی 20 میچوں کی سیریز پاکستان کی فتح پر کامیابی کے ساتھ ختم ہو چکی ہے۔ اس کے انعقاد اور سیریز کے دوران کئے گئے سیکورٹی انتظامات پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومتی اداروں کی کوششوں کو بہت سراہا گیا۔ آئی سی سی کے چیف ایگذیکٹو اور ورلڈ الیون کے مہمان کھلاڑیوں سمیت ہر کسی نے ان انتظامات کی بہت تعریف کی۔ اس سیریز نے بخوبی ثابت کیا کہ پاکستان میں نہ صرف سیکورٹی کی صورت حال اب پہلے سے کافی بہتر ہو چکی ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح کے ان ایونٹس کے انعقاد کیلئے فراہم کی جانے والی سیکورٹی کا معیار بھی بہت بہتر ہوا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ان غیر معمولی سیکورٹی انتظامات میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ذاتی طور پر دلچسپی لی اور اس سلسلے میں ہونے والے متعدد اجلاسوں میں خود شرکت کی۔ اس سلسلے میں پنجاب پولیس کا ایک نیا کمانڈ سینٹر PPIC3 تشکیل دیا گیا جو گذشتہ برس تشکیل کی گئی پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی PSCA کا ایک حصہ ہے۔ اس نئے کمانڈ سینٹر میں کسی ممکنہ دہشت گردی کے واقعے سے نمٹنے کی ٹکنکی صلاحیت میں حیرت انگیز اضافہ کیا گیا۔

سیریز کے دوران سیکورٹی انتظامات انتہائی غیر معمولی تھے

PSCA میں اعلیٰ صلاحیت کے حامل نئے IT گریجوئیٹ بھرتی کئے گئے جو شہر کے تمام حساس علاقوں میں نصب CCTV کیمروں کی مدد سے بہت بڑی سکرینوں پر پورے شہر کی نگرانی کر رہے تھے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے سیریز سے قبل جب اس کنٹرول سینٹر کا دورہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ نصب شدہ کیمروں کو سینٹر سے اس قدر زوم کیا جا سکتا تھا کہ قذافی اسٹیڈیم میں موجود پچ کی حالت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

​سیریز کیلئے سکیورٹی کے یہ خصوصی انتظامات اس لئے بھی اہمیت اختیار کر گئے کہ اُنہی دنوں لاہور میں قومی اسمبلی کی سیٹ NA120 کے انتخابات بھی کافی قریب تھے اور اس کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم شدت سے جاری تھی۔

انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سیکورٹی کے ماہر ریگ ڈیکاسن بھی سیکورٹی کے انتظامات دیکھ کر تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اُنہوں نے کہا،’’میں نے اب تک جو دیکھا ہے، PSL فائنل سے لیکر اب تک سیکورٹی کے انتظامات بہت ہی اعلیٰ رہے۔ اُنہوں نے مسلسل سیکورٹی کے ایسے انتظامات کئے جو اپنے نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ ہم نے کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے سیکورٹی کو رتی برابر بھی نظر انداز کیا ہو۔‘‘

تینوں ٹی 20 میچوں میں قذافی اسٹیڈیم شائقین سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا

​ورلڈ الیون کے خلاف یہ سیریز کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہو چکی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس کامیاب انعقاد سے اس بات کی گارنٹی حاصل نہیں ہو سکتی کہ اب پاکستان میں اعلیٰ ترین معیار کے بین الاقوامی کرکٹ میچ فوری طور پر شروع کئے جا سکیں گے۔ لیکن شائقین کی توقعات بہت بڑھ چکی ہیں اور اب سوال یہ ہے کہ کیا پی سی بی ان توقعات پر پورا اتر سکتا ہے؟

پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اس سیریز کے بعد کہا کہ اس کے انعقاد پر اُٹھنے والے اخراجات غیر معمولی طور پر زیادہ تھے اور یوں اس سیریز میں پی سی بی کو مالی خسارے کا سامنا تھا۔ پی سی بی کے مالی اخراجات اس لئے بھی بڑھ گئے کہ ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں کو سیریز کھیلنے پر راضی کرنے کیلئے غیر معمولی رقم کی پیشکش کی گئی اور ہر کھلاڑی کو ایک لاکھ ڈالر دئے گئے۔ اس سے قبل جب 2015 میں زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو اُس کے ہر کھلاڑی کو 12,500 ڈالر دئے گئے تھے۔ گذشتہ برس جن غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان میں PSL فائنل کھیلا، اُنہیں 50,000 ڈالر ادا کئے گئے۔ یوں اب یہ رقم بڑھا کر اس مرتبہ ایک لاکھ ڈالر کر دی گئی۔ اس طرح مستقبل میں پاکستان آ کر کھیلنے والے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی توقعات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور پی سی بی کے پاس یقیناً لامحدود مالی وسائل نہیں ہیں۔ لہذا آئندہ ممکنہ سیریز کیلئے پی سی بی کو یقیناً بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا۔

2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سے پاکستان میں جتنے بھی بین الاقوامی کرکٹ میچ ہوئے ہیں، وہ سب کے سب لاہور ہی میں منعقد ہوئے۔ یوں پی سی بی کیلئے ایک اور چیلنج یہ بھی ہو گا کہ مستقبل میں بین الاقوامی کرکٹ میچ لاہور کے علاوہ کراچی اور دیگر شہروں میں بھی منعقد کئے جائیں تاکہ وہاں کے کرکٹ شائقین کو بھی اعلیٰ ترین معیار کی کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے۔ ماہرین کا کہنا کہ کراچی میں کرکٹ میچوں کا انعقاد اس لئے بھی مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں اسی معیار کے سیکورٹی انتظامات کیلئے شاید پی سی بی کو سندھ حکومت سے اتنا تعاون حاصل نہ سکے جو پنجاب حکومت نے لاہور میں سیریز کے دوران فراہم کیا تھا۔

اگرچہ پی سی بی نے اعلان کر رکھا ہے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم اگلے ماہ لاہور ہی میں تین ٹی 20 میچ کھیلنے پر رضامند ہو چکی ہے اور سری لنکن ٹیم بھی پاکستان کے خلاف تین ٹی 20 میچوں میں سے ایک لاہور میں کھیلنے پر آمادہ ہے۔ لیکن شائقین کی توقعات اب اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ وہ لاہور کے علاوہ کراچی، پشاور اور دیگر شہروں میں بڑی غیر ملکی ٹیموں کے خلاف مکمل سیریز دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی سی بی ان توقعات پر پورا اتر سکے گی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔