لندن کی ایک عدالت میں اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والے تین پاکستانی کھلاڑیوں پر استغاثہ نے الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے لالچ کا شکار ہوکر کرکٹ کے کھیل کو دھوکہ دیا ہے۔
وسطی لندن کے علاقے سائوتھ ورک کرائون کی عدالت میں جاری کیس کی سماعت کے دوسرے روزاستغاثہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ برس پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران 'لارڈز' میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میچ میں اسپاٹ فکسنگ کرنے کا منصوبہ اس وقت کے پاکستانی ٹیم کے کپتان سلمان بٹ اور ان کے ایجنٹ مظہر مجید کا تیار کردہ تھا۔
استغاثہ نے موقف اختیار کیا کہ مقدمہ کی تفصیل سے انٹرنیشنل کرکٹ کے عین قلب میں ہونے والی اس "بے لگام بدعنوانی کی مایوس کن کہانی" سامنے آتی ہے جس میں، استغاثہ کے بقول، پاکستان کرکٹ ٹیم کے مرکزی کھلاڑی شریک تھے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس سرگرمی میں ٹیم کے دو فاسٹ بالرز محمد آصف اورمحمد عامر بھی ملوث تھے جنہیں پہلے سے بتائے گئے اوورز میں طے شدہ وقت پر نو بالز کرانا تھیں۔
وکیل کے بقول تینوں کھلاڑیوں نے اس مقصد کے لیے اپنے ایجنٹ کے ذریعے ہزاروں پائونڈز رشوت وصول کی تھی جس کا ادا کرنے والا برطانوی اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' کا ایک رپورٹر مظہر محمود تھا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اخبار کے رپورٹر نے ایک متمول بھارتی تاجر کے بھیس میں کھلاڑیوں کے ایجنٹ سے ملاقات کی تھی اور یہ کہہ کر اس کا اعتماد حاصل کیا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات میں ایک بڑا کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کرنے کا خواہش مند ہے۔
بعد ازاں 'نیوز آف دی ورلڈ' نے اپنے رپورٹر اور کھلاڑیوں کے ایجنٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو اور رقم کے تبادلے کے تمام دستاویزی ثبوت اور تفصیلات شائع کردی تھیں۔
استغاثہ نے مظہر محمود کی کاوش کو سراہتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر یہ تحقیقات نہ کی جاتیں تو میچ فکسنگ کی یہ سرگرمی قانون کی گرفت میں آئے بغیر بدستور یونہی جاری رہتی۔.
استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ ملزم کھلاڑیوں نے لالچ کا شکار ہوکر نہ صرف کھیل کو "آلودہ" کیا بلکہ اس حرکت سے اپنے ہی ملک کی ٹیم اور بورڈ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کرکٹ کی بدنامی کا بھی باعث بنے۔
وکیل نے دعویٰ کیا کہ ملزم کھلاڑی جس مجرمانہ سرگرمی کا حصہ بنے اسے برِ صغیر میں کھیلوں پر لگنے والے سٹے کی صنعت کی پشت پناہی حاصل تھی جہاں وکیل کے بقول صرف کرکٹ کے میچز پر ہر سال 40 سے 50 ارب ڈلرز کا سٹہ کھیلا جاتا ہے۔
بدھ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر سلمان بٹ اور محمد آصف بھی اپنے وکلاء کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے قانونی مشیر تفضل رضوی بھی سماعت میں شریک ہوئے۔ تاہم اس موقع پر مقدمہ کے شریک ملزمان فاسٹ بالر محمد عامر اور مظہر مجید غیر حاضر تھے۔
استغاثہ کی جانب سے الزامات کی تفصیل عدالت کے علم میں لائے جانے کے بعد مقدمہ کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ اس سے قبل منگل کو ہونے والی پہلی سماعت میں جج نے 12 رکنی جیوری سے لف لیا تھا اور عندیہ دیا تھا کہ مقدمہ کی کاروائی پانچ ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف مذکورہ مقدمہ غیر قانونی طور پر رقم کی وصولی اور دھوکہ دہی کی دفعات کے تحت قائم کیا گیا ہے اور الزامات ثابت ہوجانے پر ملزمان کو ان دفعات کے تحت زیادہ سے زیادہ بالترتیب سات برس اور دو برس قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
سلمان بٹ اور محمد آصف خود پر عائد الزامات کی صحت سے انکار کرتے آئے ہیں تاہم ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق محمد عامر نے عدالت کے روبرو گزشتہ ماہ جمع کرائے گئے ایک بیان میں اعترافِ جرم کرلیا تھا۔