چین کے فضائی حدود سے متعلق نئے قوانین پر تنقید میں اضافہ

جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ابے نے پیر کو پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ چین کی نئی حد بندی نافظ العمل نہیں۔
جاپان کے وزیرِ اعظم نے فضائی حدود کے دفاع سے متعلق چین کی نئی حد بندی کو ایسا خطرناک اقدام قرار دیا ہے جو سنگین مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔

چین نے ہفتہ کو نئے قوائد و ضوابط کا اعلان کیا تھا جن کے تحت ساؤتھ چائنہ سی میں متنازع جزائر کے اوپر فضائی حدود میں پرواز کرنے والے طیاروں کو اپنی شناخت کروانا ہو گی اور اُنھیں بیجنگ کی تمام ہدایات پر بھی عمل درآمد کرنا ہوگا۔

جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ابے نے پیر کو پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ چین کی نئی حد بندی نافظ العمل نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کی جاپان میں کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور چین کو انھیں منسوخ کر دینا چاہیئے۔

چین نے ان اقدامات کے تناظر میں امریکہ اور جاپان کی تنقید کو مسترد کیا ہے۔

چین کی وزارتِ دفاع نے پیر کو کہا کہ یہ تنقید بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ وزارت کے مطابق اس علاقے میں دفاع سے متعلق فضائی حدود کا تعین چین کے حقوق میں شامل ہے۔

جاپان نے اس اقدام پر ہفتہ کو باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے متنازع جزائر سے متعلق تناؤ میں اضافہ پر چین کو ہدف تنقید بنایا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے اتوار کو اپنے ردِ عمل میں کہا کہ اس معاملے سے تناؤ میں اضافہ ہو گا، جب کہ امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے اس کو ساؤتھ چائنہ سی سے متعلق ’’موجودہ صورت حال میں تبدیلی کے لیے غیر مستحکم کوشش‘‘ قرار دیا۔

مسٹر ہیگل نے کہا کہ امریکہ اس خطے میں جس طریقہ کار کے تحت فوجی آپریشنز کرتا ہے وہ اس میں کسی تبدیلی کا ارادہ نہیں رکھتا۔

جنوبی کوریا نے بھی پیر کو اس معاملہ پر ردِ عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ چین کی اعلان کردہ فضائی حدود میں سیول کی حدود کا کچھ بھی شامل ہے، جس میں سطح سمندر سے نیچے وہ چٹان بھی شامل ہے جس کا سیول دعویدار ہے۔

جنوبی کوریا نے آئی اوڈو نامی اس چٹان پر 2003ء میں ایک تحقیقاتی تنصیب بھی قائم کی تھی۔