جموں-سیالکوٹ سرحد پر بھارت اور پاکستان کے سرحدی حفاظتی دستوں کے درمیان ہونے والی تازہ جھڑپوں کے دوران نئی دہلی کے زیرِ انتظام جموں کے سرحدی علاقوں میں مزید چار شہری ہلاک اور تیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ شہری علاقوں میں مارٹر بم گرنے سے نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے اور کئی مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد چالیس ہزار سے زائد شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ضلع سیالکوٹ کے سرحدی دیہات میں بھی کم و بیش اسی طرح کی صورتِ حال پائی جا رہی ہے۔ تاہم، یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا بھارتی فائرنگ میں وہاں کوئی جانی نقصان ہوا ہے یا نہیں۔
حسبِ سابق بھارتی اور پاکستانی عہدیداروں نے ایک دوسرے کے سرحدی حفاظتی دستوں پر فائرنگ میں پہل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
جموں میں بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے (بارڈر سیکیورٹی فورس یا بی ایس ایف) نے بتایا کہ پاکستان کے پنجاب رینجرز کی طرف سے بین الاقوامی سرحد جو پاکستان میں ورکنگ باؤنڈری کہلاتی ہے کے سانبہ، کٹھوعہ اور جموں علاقوں میں اس کی اگلی چوکیوں اور شہری علاقوں کو 15 مئی سے مارٹر توپوں اور ہلکے اور درمیانی درجے کے خود کار ہتھیاروں کا استعمال کرکے ہدف بنانے کی کارروائی میں منگل کی رات شدت لائی گئی۔
بی ایس ایف کے مطابق ہیرا نگر، رام گڑھ، رنبیر سنگھ پورہ، ارنیا اور بشناہ سیکٹروں میں اس کے تقریباً چالیس بارڈر آؤٹ پوسٹس اور درجنوں دیہات پر گولے برسائے گئے۔ پولیس نے بتایا کہ پاکستانی فائرنگ اور شیلنگ میں ایک خاتون سمیت چار شہری ہلاک ہوگئے، جبکہ تیس سے زائد افراد زخمی ہوگئے جن میں بی ایس ایف کے پانچ سپاہی بھی شامل ہیں۔ ایک اور اطلاع میں مرنے والوں کی تعداد پانچ بتائی گئی ہے۔
جموں میں ڈویژنل انتظامیہ کے ایک ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا کی متاثرہ دیہات سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں از خود نقل مکانی کرچکے ہیں یا پھر پولیس اور مقامی انتظامیہ نے انہیں بُلٹ پروف گاڑیوں میں وہاں سے نکال دیا۔ جموں – سیالکوٹ سرحد کے پانچ کلومیٹر کے علاقے میں تمام تعلیمی ادارے تا حکمِ ثانی بند کردئے گئے ہیں اور طبی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہیں۔ زخمیوں کو جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال اور دوسرے طبی مراکز میں داخل کرایا گیا ہے۔
بھارتی حکام نے پاکستان کے پنجاب رینجرز پر بلا اشتعال فائرنگ اور مارٹر شیلنگ شروع کرنے کا الزام دہرایا ہے اور کہا ہے کہ بی ایس ایف نے سرحد پار سے کی گئی فائرنگ اور شیلنگ کا "مناسب جواب" دیدیا ہے۔
پاکستانی عہدیداروں نے جوابی بیان میں کہا ہے کہ بھارتی فورسز کی طرف سے اس کے سرحدی دیہات کو بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ اور شیلنگ کرکے نشانہ بنا کر نومبر 2003 میں طے پانے والے فائربندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کرنا اب ایک معمول بن گیا ہے اور یہ کہ پاکستانی افواج کی طرف سے صرف بھارتی "جارحیت" کا دندان شکن جواب دیا جارہا ہے۔
دونوں ملکوں کی سرحد پر گزشتہ آٹھ دن سے جاری ساعتی مقابلوں میں شدت بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ کے منگل کے روز دئے گئے اس بیان کے چند گھنٹے بعد دیکھنے کو ملی کہ ان کے ملک کی فورسز کو، ان کے بقول، ’’ہمسایہ ملک کی پیہم جارحیت سے نمٹنے کے لئے مکمل آزادی دی گئی ہے‘‘۔
انہوں نے دِلی میں بی ایس ایف کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارا ایک پڑوسی ہے جو خود کو سدھارنا نہیں چاہتا۔ اس کے باوجود ہمیں اپنے پڑوسی پر پہلے گولی نہیں چلانی چاہیے، لیکن اگر اس نے گولی چلائی تو آپ (بھارتی فورسز) کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔ تب کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا"۔
طرفین کے درمیان جھڑپوں کا تازہ سلسلہ 15 مئی کو شروع ہوا تھا۔ بھارتی عہدیداروں کے مطابق ان نو دنوں کے دوران پاکستانی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں نو شہری اور بی ایس ایف کے دو سپاہی ہلاک اور پچاس سے زائد افراد جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے، زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان نے بھارتی شیلنگ میں 18 اور 21 مئی کے درمیان ایک ہی خاندان کے چار افراد سمیت دس شہریوں کے ہلاک اور دو درجن سے زائد لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر دی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی فائرنگ میں سب سے زیادہ سیالکوٹ کے پھوکلیاں-باجوت، چاپرار، سچیت گڈھ، ہرپال، باجرہ گھڑی، چارواہ اور ظفروال-شکر گڑھ دیہات متاثر ہوئے ہیں۔
اس دوران، بُدھ کو وادی کشمیر کے بیجبہاڑہ علاقے میں نامعلوم افراد کی طرف سے کئے گئے دستی بم کے دھماکے میں ایک بارہ سالہ لڑکے اور تین خواتین سمیت دس افراد زخمی ہوگئے۔ عہدیداروں نے اس واقعے کے لئے مسلمان عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھرایا ہے اور کہا ہے کہ ان کا ہدف غالباً بھارتی سیکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی تھی جو اس وقت علاقے سے گزر رہی تھی۔ لیکن ان کا نشانہ چوک گیا اور ان کی طرف سے پھینکا گیا دستی بم سڑک پر گر کر پھٹ گیا۔
یہ 16 مئی کو بھارتی حکومت کی طرف سے رمضان کے مہینے کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کو معطل رکھ کر مشروط عارضی جنگ بندی کے اعلان کے بعد پیش آنے والا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
بھارتی عہدیداروں کے مطابق پاکستانی شیلنگ میں ہلاک ہونے والوں میں ایک سات ماہ کا بچہ بھی شامل ہے جس کے بعد نئی دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر سید حیدر شاہ کو دفتر خارجہ پر طلب کرکے احتجاج درج کرایا گیا۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پاکستانی ڈپٹی ہائی کمشنر پر یہ واضح کیا گیا کہ اُن کے ملک کی افواج کی طرف سے بے گناہ شہریوں کو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے "دانستہ طور پر نشانہ بنانا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے جس کی سخت الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے"۔
Your browser doesn’t support HTML5