جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ اور روس اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ آیا قصور کس کا ہے، لیکن دونوں اس بات پر رضامند ہیں کہ حملے میں شہری ہلاک ہوئے۔
واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اُن کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف نے جمعرات کی شام گئے جنیوا میں مذاکرات کا آغاز کیا، جِن کا مقصد شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے تلف کرانا ہے۔
شام کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، کیری نے کہا کہ اُنھیں اس بات کی توقع ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے پچھلے ماہ دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملوں میں حکومتِ شام کی افواج کے ملوث ہونے کے مبینہ معاملے پر ممکنہ امریکی فوجی کارروائی سے بچا جا سکتا ہے۔
کیری نے کہا کہ امریکہ اور روس اس بات سے اتفاق نہیں کرتے آیا قصور کس کا ہے، لیکن دونوں اس بات پر رضامند ہیں کہ اس حملے میں شہری ہلاک ہوئے اور یہ کہ شام کے تنازع میں کیمیائی ہتھیار خطرے کا باعث ہیں۔
کیری نے مزید کہا کہ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا آیا سفارت کاری کارآمد ثابت ہوگی، لیکن امریکہ اپنی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔
لاوروف نے کہا کہ اُن کا خیال ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ اتفاق رائے کے حصول کا خواہشمند ہے۔
اُنھوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے مضمون کا ذکر کیا جس میں مسٹر پیوٹن نے اسد حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے خلاف امریکہ کو متنبہ کیا، جس ایک طویل عرصے سے روس کا اتحادی ہے۔
کیری نے شام کے صدر بشار الاسد کے اُس بیان پر اعتراض کیا جس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی بندش پر اقوام متحدہ کے معاہدے میں شامل ہونے کے بعد وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کی معلومات فراہم کردے گا۔
مسٹر اسد نے یہ دعویٰ جمعرات کو نشر ہونے والے روسی ٹیلی وژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ماہ کی میعاد معیاری نوعیت کے مطابق ہے۔
کیری نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں معیار کا معاملہ عام نہیں رہا۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو شام کی طرف سے عالمی ادارے کو ایک مراسلہ موصول ہوا ہے جس میں تخفیف اسلحہ کے عمل کی ابتدا کے لیے مسودہ تیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے، تاکہ بین الاقوامی معاہدے میں شریک ہوا جائے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ کیری، لاوروف ملاقات کے’ٹھوس نتائج نکلیں گے‘۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ شامی ہتھیاروں کا حصول اور اُنھیں تلف کرنا ممکن، تاہم، ’مشکل اور پیچیدہ‘ معاملہ ہے۔
شام کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، کیری نے کہا کہ اُنھیں اس بات کی توقع ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے پچھلے ماہ دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملوں میں حکومتِ شام کی افواج کے ملوث ہونے کے مبینہ معاملے پر ممکنہ امریکی فوجی کارروائی سے بچا جا سکتا ہے۔
کیری نے کہا کہ امریکہ اور روس اس بات سے اتفاق نہیں کرتے آیا قصور کس کا ہے، لیکن دونوں اس بات پر رضامند ہیں کہ اس حملے میں شہری ہلاک ہوئے اور یہ کہ شام کے تنازع میں کیمیائی ہتھیار خطرے کا باعث ہیں۔
کیری نے مزید کہا کہ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا آیا سفارت کاری کارآمد ثابت ہوگی، لیکن امریکہ اپنی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔
لاوروف نے کہا کہ اُن کا خیال ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ اتفاق رائے کے حصول کا خواہشمند ہے۔
اُنھوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے مضمون کا ذکر کیا جس میں مسٹر پیوٹن نے اسد حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے خلاف امریکہ کو متنبہ کیا، جس ایک طویل عرصے سے روس کا اتحادی ہے۔
کیری نے شام کے صدر بشار الاسد کے اُس بیان پر اعتراض کیا جس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی بندش پر اقوام متحدہ کے معاہدے میں شامل ہونے کے بعد وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کی معلومات فراہم کردے گا۔
مسٹر اسد نے یہ دعویٰ جمعرات کو نشر ہونے والے روسی ٹیلی وژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ماہ کی میعاد معیاری نوعیت کے مطابق ہے۔
کیری نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں معیار کا معاملہ عام نہیں رہا۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو شام کی طرف سے عالمی ادارے کو ایک مراسلہ موصول ہوا ہے جس میں تخفیف اسلحہ کے عمل کی ابتدا کے لیے مسودہ تیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے، تاکہ بین الاقوامی معاہدے میں شریک ہوا جائے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ کیری، لاوروف ملاقات کے’ٹھوس نتائج نکلیں گے‘۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ شامی ہتھیاروں کا حصول اور اُنھیں تلف کرنا ممکن، تاہم، ’مشکل اور پیچیدہ‘ معاملہ ہے۔