پاکستان میں سائبر جرائم سے متعلق آگاہی کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ’نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ’سائبر جرائم‘ کے خطرات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے تجاویز بھی دی گئیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ’سائبر جرائم‘ دنیا کے دیگر ممالک کے طرح پاکستان کے لیے بھی ایک خطرہ ہیں جس کے لیے موثر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ سیمینار ’سائبر محفوظ پاکستان‘ کے عنوان سے منعقد کیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں طالب علموں کے علاوہ مختلف متعلقہ سرکاری اداروں کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔
پاکستان انفارمیشن سکیورٹی ایسوسی ایشن کے سربراہ عمار جعفری جن کے ادارے نے اس سیمینار کا انعقاد کیا، اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ملک کو ’سائبر جرائم‘ سے محفوظ بنانا ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمار جعفری کا کہنا تھا کہ اس دور میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن اس پر اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کو محفوظ بنایا جائے۔
سیمینار میں شریک پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کی قانونی مشیر طارق بلال ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس وقت ملک میں سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے کئی قوانین پر کام جاری ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ حال ہی میں ’ایف آئی اے‘ نے سائبر جرائم سے متاثر افراد کے لیے ’’9911‘‘ ہیلپ لائن کا بھی آغاز کیا ہے جس پر متاثر لوگ شکایات کر سکتے ہیں۔