کینیا نے کہا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک داداب پناہ گزیں کیمپ بند کر دے گا۔ اس کیمپ ٕ میں تقریباً 30 ہزار افراد پناہ لیے ہوئے ہیں ، جن میں زیادہ تر صومالی ہیں۔
دونوں ملکوں نے پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کی ایک پالیسی پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد پہلے ہی سے کچھ مشکلات کا نشانہ بن رہا ہے۔اور پناہ گزینوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ آیا وہ یہاں رکے رہیں یا اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔
کینیا کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ معاشی دباؤ اور قومی سلامتی سے منسلک خدشات کی وجہ سے یہ کیمپ بند کر رہے ہیں اور انہوں نے پناہ گزینوں کے عالمی ادارے UNHCR کی جانب سے کیمپ کھولے رکھنے کا إصرار قبول نہیں کیا۔
پروازیں لوگوں کو صومالی دارالحکومت موغا دیشو لے جا رہی ہیں ، لیکن اگست میں جوبالینڈ کی جانب واپسی وہاں کے عہدے داروں کی طرف سے یہ کہنے کے بعد روک دی گئی تھی کہ وہ مزید لوگوں کو قبول نہیں کرسکتے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اسے رضاکارانہ وطن واپسی نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ اس عمل میں کوٹہ اور ڈیڈ لائن شامل ہے۔
کینیا کی حکومت نے اس سلسلے میں کیے جانے والے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
جو لوگ موغا دیشو جانے کا فیصلہ کرتے ہیں ، وہ اپنا سامان اٹھاتے ہیں، UNHCR کی جانب سے 150 ڈالر نقدی کی شکل میں امداد لیتے ہیں اور اپنے طیارے پر سوار ہوجاتے ہیں ، اور وہ اس چیز سے بے خبر اور لاعلم ہوتے ہیں کہ جب وہ صومالیہ کی زمین پر قدم رکھیں گے تو وہاں ان کے لیے کیا موجود ہوگا۔