دلائی لامہ نے تبت کے بھکشوؤں اور راہباؤں کی خودسوزی کی حالیہ لہر کا الزام چین کی سخت گیر پالیسیوں پر عائد کرتے ہوئے اسے ثقافتی نسل کشی قراردیا ہے۔
جمعرات کے رو ز ایک 35 سالہ راہبہ نے جنوب مغربی صوبے سچوان میں خودسوزی کرلی تھی ، جس کے بعد حالیہ مہینوں میں چین کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً خود کو آگ لگاکر ہلاک کرنے والے بھکشوؤں اور راہباؤں کی تعداد 11 ہوگئی ہے۔
پیر کے روز جاپان میں گفتگو کرتے ہوئے دلائی لامہ نے کہا کہ حتی ٰ کہ اب تبت جانے والے سیاح بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں کی صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں ایک طرح کی ثقافتی نسل کشی جاری ہے۔
جلاوطن روحانی پیشوا نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ 10 / 15 سال سے تبت کے علاقوں پر حکمرانی کے لیے چین کے سخت گیر عہدے داروں کو بھیجا جارہاہے۔ انہوں نے مزید کہا بودھ بھکشوؤں اور راہباؤں کی خود سوزی کے واقعات کی ذمہ داری حکومت کے اس طرح کے اقدامات پر ہے۔
خود سوزی کے زیادہ تر واقعات صوبے سچوان کی بودھ عبادت گاہ کرتی کے قرب وجوار میں ہوئے ہیں۔ وہاں خود سوزی کا پہلا واقعہ مارچ میں ہوا تھا۔
خود سوزی کے واقعات کا نتیجہ حکومت کی جانب سے پکڑدھکڑ کی سخت کارروائیوں کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جس کے تحت بھکشوؤں اور راہباؤں کو مخصوص تعلیمی پروگراموں میں بھیجا جارہاہے اور عبادت گاہوں کی ملحقہ گلیوں میں سیکیورٹی فورسز کے مسلح اہل کاروں کو گشت پرمعمور کردیا گیاہے۔
چین نے الزام لگایا ہے کہ دلائی لامہ خود سوزیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ، اور وہ ایسےواقعات کی مذمت کرنے میں ناکام رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔
امریکہ نے پچھلے ہفتے کہاتھا کہ چین کی پالیسیوں نے جس کشیدگی کوجنم دیا ہے اس سے تبت کے لوگوں میں اپنے منفرد مذہب، ثقافت اور زبان کی شناخت کے حوالے سے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔