ایل او سی پر پاک بھارت جھڑپیں: سرحدی دیہات تباہی اور بربادی کی تصویر

پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان ایل او سی پر حالیہ جھڑپوں سے شہری آبادیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

"لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب بسنے والوں کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہاں عموماً شیلنگ ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اس بار اس کی شدت زیادہ تھی۔"

یہ کہنا ہے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے بلہ کوٹ گاؤں کے مکین عبدالحلیم کا جو اس متاثرہ علاقے میں رہتے ہیں جس کے درجنوں گاؤں پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے نتیجے میں تباہ ہو گئے تھے۔

عبدالحلیم نے بتایا کہ جب پاکستان اور بھارت کی فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی تو وہ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔

اُن کے بقول "اہلِ خانہ کے فون کرنے پر جب میں پہنچا تو یہ دیکھ کر سکتے میں آ گیا کہ میرا، میرے چچا اور چچا زاد بھائی کے مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کسی کو چوٹ نہیں لگی۔ لیکن ہمیں بتائیں ہم نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے جس کے جرم میں ہمیں اس طرح کی سزا دی جا رہی ہے۔ ہم نے محنت مزدوری کر کے اپنے لیے یہ مکان بنائے تھے۔ ہم نے پاکستان کا کچھ بگاڑا تھا اور نہ ہندوستان کا۔ پھر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟"

پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان ایل او سی پر جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے دونوں اطراف کے شہریوں کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا رہتا ہے۔

بھارتی اور پاکستانی حکام نے تصدیق کی تھی کہ جمعے کو دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان ایل او سی پر جھڑپوں میں عام شہریوں سمیت فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ بھاری ہتھیاروں کے استعمال اور گولہ باری کے باعث کئی مکانات بھی تباہ ہو گئے تھے۔

پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سب سے زیادہ ضلع بارہ مولہ میں واقع اوڑی اور ضلع بانڈی پور کے دیہات میں نقصان ہوا۔ مکانوں کو نقصان پہنچنے سے کئی افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

جھڑپوں کے بعد اتوار کو سیز فائر کے باوجود اب بھی مقامی آبادی خوف زدہ ہے جب کہ جانی نقصان اُٹھانے والے گھرانوں میں فضا سوگوار ہے۔ گولہ باری اور ہلکے اور درمیانے درجے کے ہتھیاروں کی فائرنگ میں جو سرحدی دیہات متاثر ہوئے وہ آج بھی تباہی اور اداسی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔

قریبی گاؤں سلطان ڈگی کے روحیل احمد میر نے گولہ باری میں اپنے بھائی طاہر احمد میر کو کھو دیاہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرا بھائی محکمہ خوراک میں کام کرتا تھا۔ وہ گاوٴں ہی کے ایک ڈپو میں راشن تقسیم کر رہا تھا کہیں سے ایک مارٹر گولہ آ گرا اور اس کے پھٹنے سے وہ شدید زخمی ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد دم توڑ گیا۔

اُن کے بقول گولہ کس نے داغا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن میری ماں نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے اور میں نے اپنا بھائی۔ ہمارے دلوں کی کیا کیفیت ہو گی، آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم چھ بھائی تھے۔ ایک کو ہم سے چھین لیا گیا۔

'گولے پر نام نہیں لکھا ہوتا'

بلہ کوٹ کے ایک شہری نذیر احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "جب فائرنگ یا شیلنگ ہوتی ہے اور شہری علاقے اس کی زد میں آ جاتے ہیں تو یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ گولہ پاکستان کی جانب سے داغا گیا یا بھارت کی جانب سے، کیوں کہ اس پر کسی ملک کا نام نہیں لکھا ہوتا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم میڈیا کے ذریعے انتظامیہ تک یہ بات پہنچانا چاہتے ہیں کہ فائرنگ کا آغاز پاکستان کی طرف سے ہو یا بھارت کی طرف سے، خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ صورتِ حال ختم ہونی چاہیے۔"

بلہ کوٹ ہی کے بشیر احمد ڈار نے ان جھڑپوں میں اپنی 35 سالہ بیوی فاروقہ بیگم کو کھو دیا ہے۔ فاروقہ گھر کے کام کاج میں لگی ہوئی تھی کہ ایک مارٹر گولہ کہیں سے آ گرا اور وہ اس کی زد میں آ گئیں۔

پاکستانی کشمیر میں بھی تباہی

اسی طرح کی صورتِ حال پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی بھی ہے جہاں حالیہ جھرپوں سے کئی مکانات اور شہری املاک کو نقصان پہنچا ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ وہ پاکستانی آبادی کو جان بوجھ کر نشانہ بناتا ہے۔ پاکستانی حکام نے ان جھڑپوں میں چار شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی کشمیر کی نیلم وادی، لیپا، جہلم اور باغ وادی میں بھارتی فوج کی گولہ باری کے نتیجے میں 15 گھر، چند کئی منزلہ عمارتیں اور ایک دکان تباہ ہوئی۔

دونوں ملکوں کے متضاد دعوے

پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے جواب میں پاکستانی فوج نے بھارت کو جواب دیا جس سے بھارتی فوج کو جانی نقصان اُٹھانا پڑا۔ لیکن بھارت نے پاکستانی علاقوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔

جب کہ بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے پاکستانی دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ایل او سی پر گریز، کیرن، نوگام اور اوڑی سیکٹروں میں متعدد مقامات پر مارٹر گولوں اور دیگر بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا اور جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔

بھارتی حکام نے حالیہ جھڑپوں میں 11 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے دعوے کیے ہیں۔

بھارتی حکام کے مطابق اس سال اب تک لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد یا ورکنگ باؤنڈری پر پیش آنے والے پُرتشدد واقعات میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے 32 اہلکار، 26 مبینہ عسکریت پسند، 16 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس سال اب تک فائر بندی کی 2400 سے زائد خلاف ورزیاں کی ہیں جن میں 28 شہری ہلاک اور 200 زخمی ہوئے ہیں۔

بھارتی کشمیر کے اوڑی اور گریز سرحدی علاقوں کے مکینوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لیے کنکریٹ کے بنکر تعمیر کیے جائیں تاکہ گولہ باری اور فائرنگ کی صورت میں وہ ان میں منتقل ہو کر جانی نقصان سے بچ سکیں۔