تصاویر: کیا درے کے اسلحے کا دور گزر گیا؟

2011 کے بعد سے علاقے کے حالات معمول پر آنا شروع ہوئے تو اسلحہ سازی اور خرید و فروخت سے منسلک لوگوں نے دوبارہ سرگرمیاں شروع کردیں ہیں مگر اب بھی انہیں مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

بندوقوں کی تیاری کا مرحلہ: یہاں اسلحہ بنانے اور اسے ساتھ لیکر گھومنے پھرنے پر ابتدا میں کسی قسم پابندی نہیں تھی۔ ہاتھ اور چھوٹی موٹی مشینوں سے بنیں بندوقیں، رائفلیں، پستول اور ریوالور کا استعمال اور ساتھ رکھنا عام تھا۔ یہ تمام اسلحہ سرکاری لائسنس پر رکھا جاتا تھا۔

تیار اسلحہ: ابتدا میں درے میں روایتی ہتھیار جس میں مختلف اقسام کی بندوقیں اور پستولیں شامل ہیں بنتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں اسلحہ سازی کی صنعت کا رواج پڑتا چلا گیا۔

 

اسلحہ کی فروخت کا ایک منظر: پچھلے چند مہینوں بالخصوص جولائی 2018 کے عام انتخابات کے بعدسے اسلحہ سازی کی صنعت میں کچھ تیزی ریکارڈ کی گئی ہے

فروخت کے لئے موجود کلاشنکوف :یہاں اسلحہ سازی کی صنعت کی ابتدا اُنیسوی صدی کے اواخر میں اُس وقت ہوئی جب برطانوی فوج میں شامل میرونامی ایک سپاہی بغاوت کرکے اس قبائلی پٹی میں رہائش پذیر ہوا۔ میرو اپنے ساتھ برطانوی ساخت کی بندوق بھی لے کر آیا تھا۔

اسلحہ سازی میں مصروف ایک بزرگ کاریگر :  ایک کاریگر جنت گل نے بتایا ’ طالبان کے آنے سے قبل حالات بہت اچھے تھے مگر بعد میں طالبان کی اس علاقے میں آمد و رفت سے  یہ صنعت مکمل طور پر مفلوج ہوگئی۔

 

اسلحہ سازی میں مصروف ایک اور کاریگر:  موجودہ حالات میں کاریگر پشاور اور دیگر علاقوں میں جابسے ہیں  کاریگروں کا کہنا ہے کہ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔

 

اسلحہ تیاری کا ایک منظر۔ کاریگر اپنے کام میں مصروف ہیں ۔ ایک کاریگر کا کہنا ہے کہ ابھی معاملہ گھما گھوں والا ہے ۔ اسلحہ سازی پر پابندی لگتی ہے نہیں لگتی، فاٹا سے انضمام کے مکمل ہونے کے بعد پتہ چلے گا۔

 

تیاری کے مراحلے طے کرتا اسلحہ: پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کاریگر نے سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسلحہ سازی کی صنعت کو زورال پذیر قرار دیا۔