ریپبلکن کانگریس مین رچرڈ ہڈسن کی جانب سے بتایا گیا کہ ریپبلکنز کی ایک میٹنگ میں ایوان ِ نمائندگان میں ریپبلکن سپیکر جان بونیر کا کہنا تھا کہ، ’کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کوئی مذاکرات نہیں کیے جا رہے۔‘
واشنگٹن —
واشنگٹن میں حکومت کی فنڈنگ پر جاری سیاسی تعطل اور قرضوں کے معاملے پر صدر اوباما اور ریپبلکنز کے درمیان اگلے ایک دو روز تک کسی معاہدے پر پہنچنے کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
واشنگٹن میں حکومت کا کاروبار دوبارہ کھولنے اور حکومت کے قرضوں کی حد کو بڑھانے کے لیے اب سینیٹ میں موجود ریپبلکنز کی جانب توجہ مرکوز ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی حکومت کے پاس 17 اکتوبر کے بعد مالی ادائیگیوں کے لیے رقم ختم ہو جائے گی۔
خبررساں ادارے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے ریپبلکن کانگریس مین ہیرلڈ روجرز کا کہنا تھا کہ، ’میرے خیال میں اب وائیٹ ہاؤس سینیٹ سے بات کر رہا ہے۔‘
دوسری طرف ریپبلکن کانگریس مین رچرڈ ہڈسن کی جانب سے بتایا گیا کہ ریپبلکنز کی ایک میٹنگ میں ایوان ِ نمائندگان میں ریپبلکن سپیکر جان بونیر کا کہنا تھا کہ، ’کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کوئی مذاکرات نہیں کیے جا رہے۔‘
وائیٹ ہاؤس کی جانب سے ایوان ِ نمائندگان کے سپیکر جان بونیر کے اُس پلان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جس کے تحت امریکی قرضوں کی حد کو محض 22 نومبر تک بڑھایا جائے گا جبکہ باقی تمام مطالبات جن پر طویل مذاکرات ضروری ہیں، حکومت کے شٹ ڈاؤن اور نادہندگی کے خوف تلے ہی طے کیے جائیں گے۔
دوسری جانب، ریپبلکن سینیٹر سوسن کولنز کی جانب سے لکھے گئے اُس پلان پر بھی دلچسپی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جس کی رُو سے حکومت کو اسکی حالیہ شرح کے مطابق اگلے چھ ماہ کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں گے جبکہ مالیات کے ادارے کے لیے بھی قرضے حاصل کرنے کے اختیار میں 31 جنوری تک توسیع کر دی جائے گی۔
امریکی مالیات کے ادارے کے مطابق ادارے کا قرضے حاصل کرنے کا اختیار جمعرات تک ختم ہو رہا ہے اور اگر کانگریس کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی تو امریکہ جمعرات تک نادہندہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن میں حکومت کا کاروبار دوبارہ کھولنے اور حکومت کے قرضوں کی حد کو بڑھانے کے لیے اب سینیٹ میں موجود ریپبلکنز کی جانب توجہ مرکوز ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی حکومت کے پاس 17 اکتوبر کے بعد مالی ادائیگیوں کے لیے رقم ختم ہو جائے گی۔
خبررساں ادارے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے ریپبلکن کانگریس مین ہیرلڈ روجرز کا کہنا تھا کہ، ’میرے خیال میں اب وائیٹ ہاؤس سینیٹ سے بات کر رہا ہے۔‘
دوسری طرف ریپبلکن کانگریس مین رچرڈ ہڈسن کی جانب سے بتایا گیا کہ ریپبلکنز کی ایک میٹنگ میں ایوان ِ نمائندگان میں ریپبلکن سپیکر جان بونیر کا کہنا تھا کہ، ’کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کوئی مذاکرات نہیں کیے جا رہے۔‘
وائیٹ ہاؤس کی جانب سے ایوان ِ نمائندگان کے سپیکر جان بونیر کے اُس پلان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جس کے تحت امریکی قرضوں کی حد کو محض 22 نومبر تک بڑھایا جائے گا جبکہ باقی تمام مطالبات جن پر طویل مذاکرات ضروری ہیں، حکومت کے شٹ ڈاؤن اور نادہندگی کے خوف تلے ہی طے کیے جائیں گے۔
دوسری جانب، ریپبلکن سینیٹر سوسن کولنز کی جانب سے لکھے گئے اُس پلان پر بھی دلچسپی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جس کی رُو سے حکومت کو اسکی حالیہ شرح کے مطابق اگلے چھ ماہ کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں گے جبکہ مالیات کے ادارے کے لیے بھی قرضے حاصل کرنے کے اختیار میں 31 جنوری تک توسیع کر دی جائے گی۔
امریکی مالیات کے ادارے کے مطابق ادارے کا قرضے حاصل کرنے کا اختیار جمعرات تک ختم ہو رہا ہے اور اگر کانگریس کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی تو امریکہ جمعرات تک نادہندہ ہو سکتا ہے۔