بین الاقوامی سائنسدانوں کے ایک گروپ کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 13 سالوں میں ایچ آئی وی ایڈز سے ہونے والی اموات میں 11 فیصد جب کہ اس کے نئے کیسز میں 15 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
لیکن پاکستان میں اس مرض سے بچاؤ کے لیے کام کرنے والے عہدیدار اس رپورٹ سے متفق نہیں۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ اویلوایشن کے تحت کی گئی جس کے مطابق پہلے ایک لاکھ افراد میں سے ایچ آئی وی ایڈز کا ایک کیس سامنے آتا تھا جب کہ اب یہ شرح 6.7 ہے۔
رپورٹ ہونے والے کیسز میں اضافے کے بارے میں پاکستان میں متعلقہ عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ اب پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں لوگ اس مرض کی تشخیص کے لیے رجوع کرتے ہیں۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مینیجر ڈاکٹر بصیر اورکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد ایک ہی سرنج کے بار بار استعمال کرنے والوں کی ہے جن پر نظر رکھنے اور ان کے علاج کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
ملک میں ایچ آئی وی ایڈز کی روک تھام میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ ان کے نزدیک معاشرے کے غیر محفوظ اور غیر محتاط رویے ہیں۔
"غیر محفوظ سرنج کا استعمال، غیر محفوظ جنسی روابط، غیر محفوظ انتقال خون ان سب چیزوں کے لیے کوئی خاص قانون سازی بھی نہیں ہے کہ ہم دعوے سے کہہ سکیں کہ ایک سرنج بار بار استعمال نہیں ہوگی۔"
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت ایک لاکھ کے لگ بھگ ایسے افراد موجود ہو سکتے ہیں جو ایڈز کے وائرس سے متاثرہ ہوں لیکن ان کے بقول ایسے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد خاصی کم ہے۔
ڈاکٹر بصیر کا کہنا تھا کہ لوگوں تک اس مرض سے متعلق آگاہی اور اس سے بچاؤ کے طریقوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا کر اس موذی وائرس سے بچا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا جانا چاہیئے کہ تشخیص کے بعد اگر بروقت علاج شروع کیا جائے تو مریض اس بیماری کے لاحق ہونے کے باوجود زندگی گزار سکتا ہے۔
بین الاقوامی سائنسدانوں کی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں ایک خوش آئند بات بھی سامنے آئی کہ یہاں 2000ء سے 2013ء کے درمیان ٹی بی اور ملیریا سے ہونے والی اموات میں کمی دیکھی گئی۔
تحقیق کے مطابق 2000ء میں ایک لاکھ پاکستانیوں میں ٹی بی کے 227 مریض تھے جب کہ اب یہ تعداد 151 ہوگئی ہے۔