بیٹ مین کا بہروپ دھارنے والا شخص حادثے میں ہلاک

فائل فوٹو

پولیس کا کہنا ہے کہ رابنسن پورے لوازمات کے ساتھ بیٹ مین کا لباس پہنے مغربی ورجینیا میں ایک میلے میں شرکت کے بعد گھر جارہے تھے جب ان کی خصوصی ’بیٹ موبائل‘ کار میں خرابی پیدا ہوئی اور انہوں نے اس کا انجن چیک کرنے کے لیے اسے روکا۔

امریکہ کے مشرقی شہر بالٹیمور میں رہنے والا ایک شخص جو افسانوی ہیرو ’بیٹ مین‘ کا بہروپ اپنا کر اسپتالوں اور خیراتی تقریبات میں ہزاروں بچوں کو محظوظ کرتا تھا، کو بین الریاستی ہائی وے میں ایک تیز رفتار گاڑی نے اتوار کی شام ٹکر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

لیونارڈ رابنسن کی کہانی پیر کی دوپہر امریکہ کی علاقائی خبروں میں سامنے آئی اور شام تک اس 51 سالہ انسان دوست شخص کی کہانی امریکہ اور یورپ اور دیگر علاقوں میں پھیل گئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ رابنسن پورے لوازمات کے ساتھ بیٹ مین کا لباس پہنے مغربی ورجینیا میں ایک میلے میں شرکت کے بعد گھر جارہے تھے جب ان کی خصوصی ’بیٹ موبائل‘ کار میں خرابی پیدا ہوئی اور انہوں نے اس کا انجن چیک کرنے کے لیے اسے روکا۔ وہ اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ اپنی گاڑی کے انجن پر جھکے ہوئے تھے اور ایک گاڑی نے ان کی کار کو ٹکر مار دی۔

میلے کی ایک عہدیدار شیرون سمپٹر ڈائز نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ میلے میں، ڈے کیئر سینٹرز اور ایک لائبریری کے دورے کے دوران رابنسن سینکڑوں بچوں سے ملے۔

’’وہ ہمیشہ بچوں کو بتاتے تھے کہ وہ ان کی کتنی قدر کرتے ہیں اور وہ کتنے اچھے ہیں۔‘‘

رابنسن 2012 میں اس وقت قومی توجہ کا مرکز بنے جب واشنگٹن کے قریب ایک پولیس افسر نے انہیں لائسنس پلیٹ کی خلاف ورزی کرنے پر روکا تو اس نے دیکھا کہ گاڑی میں سے بیٹ مین نکلا۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بہت مضحکہ خیز تھا جس میں پولیس اہلکاروں نے ان کی تصویریں کھینچنے کی درخواست کی۔ رابنسن نے خوشی سے ان کو اجازت دے دی۔ پولیس کی گاڑی کے ڈیش بورڈ پر لگے کیمرے سے بنائی گئی اس واقعے کی وڈیو انٹرنیٹ پر بے پناہ مقبول ہوئی۔

محبت کا کام

رابنسن نے 2001 میں اپنے بیٹے کے سب سے پسندیدہ سپرہیرو کے بہروپ میں اسپتالوں کے دورے کرنا شروع کیے۔ ان کے والد نے کہا کہ وہ اسپتالوں، سکولوں اور خیراتی تقریبات میں سالانہ 18 دورے کرتے تھے اور بچوں کو کھلونے اور آٹوگراف دیتے تھے مگر ساتھ ہی بچوں کو برے رویوں سے منع کرتے تھے۔

وہ بالٹیمور میں ایک کامیاب کاروبار کے مالک تھے جسے انہوں نے ایک بڑی کمپنی کو فروخت کر دیا تھا اور پھر وہ اپنا زیادہ وقت اور پیسہ بچوں کے لیے صرف کیا۔ روزنامہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق وہ سالانہ اپنی ذاتی آمدن سے 25000 ڈالر بچوں کے لیے بیٹ مین سے متعلق تحائف پر خرچ کرتے تھے۔

ان کی ویب سائٹ کے مطابق ان کا مشن ’’بیمار اور دائمی مریض بچوں کو ’بیٹ مین‘ بن کر تفریح فراہم کرنا اور انہیں یہ بتانا تھا کہ امید ہمیشہ موجود ہوتی ہے چاہے بیماری کے ساتھ ان کی جنگ کتنی بھی طویل کیوں نہ ہو۔‘‘