کراچی: دنیا بھر کی طرح، پاکستان میں بھی، سرکس کی روایات قدیم ہیں، جہاں عوام کی تفریح کے لئے ہر سامان مہیا ہوتا ہے، وہیں 'موت کا کنواں' اس سارے سرکس کی جان سمجھا جاتا ہے۔
موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والا اپنی زندگی داؤ پہ رکھ کر 'لکڑی کے ٹکڑوں' اور لوہے سے جڑے ایک گول دائرے میں زمین سے کئی فٹ بلند موٹر سائیکل چلانے کا کرتب دکھاتا ہے، جسے دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
بہاولپور سے تعلق رکھنےوالے، محمد عمران بھی ایسے ہی پیشے سے وابستہ ہیں جو پچھلے 20 برسوں سے ملک کے مختلف حصوں میں لگنے والے مختلف سرکسوں میں اپنی پرانی موٹرسائیکل کو لکڑی کی پٹیوں پر تیز رفتاری سے چلانے میں مہارت رکھتے ہیں، موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
محمد عمران بنا کسی حفاظتی بند کے 'موت کے کنویں' میں موٹرسائیکل کی سواری کرتے ہیں، جس میں وہ کئی بار زخمی بھی ہوچکے ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ کو دئےگئے ایک خصوصی انٹرویو میں عمران کہتے ہیں: 'یہ زندگی اور موت کا کھیل ہے۔ لوگ اسے 'جادو' کہتے ہیں مگر یہ جادو نہیں ایک بہت مشکل کام ہے، اس کام سے ان کی روزی روٹی جڑی ہے"۔
اپنے اس خطرناک پیشے کے حوالے سے عمران مزید کہتے ہیں کہ"لوگ ان کےاس خطرناک کھیل کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں‘‘۔
عمران کا خصوصی انٹرویو اور ان کے خطرناک کرتب دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئیے یہ وڈیو رپورٹ:
Your browser doesn’t support HTML5