یورپی تحقیق کاروں کا کہنا ہےکہ نسیان کی بیماری دنیا بھر میں تین کروڑ پچاس لاکھ لوگوں پر اثرانداز ہوچکی ہےجس پر صرف اِس سال 600ارب ڈالر زیادہ لاگت آئی ہے۔
برطانیہ میں قائم تنظیم ‘الزہائیمر ز ڈزایز انٹرنیشنل (اے ڈی آئی)’نے الزہائیمر اور ذہنی پسماندگی کی قسم کی دیگر بیماریوں کو اکیسویں صدی میں صحت اور معاشرے کا قابلِ ذکربحران قرار دیا ہے۔ گروپ نے یہ نتائج منگل کے روز اپنی رپورٹ میں بیان کیے ہیں۔
اُس نے کہا کہ جوں جوں لوگوں کی عمریں طویل ہوتی جارہی ہیں، الزہائمر، ذہنی پسماندگی کی سب سے زیادہ عام قسم کے طور پر تیزی سے پھیل رہی ہے،اور خبردار کیا کہ ڈمینشیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کے علاج معالجے پر لاگت میں اضافہ آنا لازم ہے۔
تحقیق کار کہتے ہیں کہ اِس بیماری سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد 2030ء تک چھ کروڑ 60لاکھ اور 2015ء میں یہ تعداد بڑھ کر11کروڑ 50لاکھ ہوجائے گی۔
ادارے کی چیرمین، ڈیزی اکوسٹا نے ایک بیان میں کہا کہ دنیا بھر کی حکومتیں اِس بیماری کے باعث پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی خلل اندازی کا مقابلہ کرنے سے بری طرح قاصر ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈمینشیا پر اُٹھنے والی مالی لاگت دنیا کی اٹھارہویں سب سے بڑی معیشت کے حجم کے برابر ہے۔
اے ڈی آئی کے ترجمان مارک ورٹمن کا کہنا ہے کہ ڈمینشیا کابحران عالمی سطح پر اقدام کا متقاضی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر آگہی اور تحقیق اور علاج کے لیے سرمایہ لگانے کا سیاسی عزم پیدا ہوجائے تو اس بیماری سے نمٹنا اور اس سے بچاؤ ممکن ہو سکتا ہے۔
ڈمینشیا زیادہ تر یادداشت، سوچ، رویے اور روزمرہ کے کام کاج کی صلاحیت میں رفتہ رفتہ کمی کےباعث پیدا ہوتی ہے۔