سائنس دان ڈینگی بخار کی خطرناک قسم کے بخار کا سبب بننے والے عناصر کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جس سے اس پر قابو پانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
ڈینگی گرم مرطوب علاقوں کا ایک مہلک مرض ہے ۔ سن 2016 میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال تقربیاً چار کروڑ افراد ڈینگی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور لگ بھگ ایک کروڑ لوگوں کو مرض کی شديد علامات کے باعث اسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں آباد ڈھائی ارب آبادی کو ڈینگی کے خطرے کا سامنا ہے اور یہ موذی مرض ہر سال 25 ہزار تک انسانی جانیں نگل لیتا ہے۔
یہ جان لیوا بخار ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جو ڈینگی کا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔
ڈینگی وائرس کی چار اقسام ہیں۔ اس مرض کی علامتوں میں بخار، بدن میں درد اور بے چینی شامل ہے۔ پہلی بار وائرس کے حملے میں اس مرض کی علامتیں عموماً شديد نہیں ہوتیں۔
لیکن دوسری بار ڈینگی کا حملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ مرض کی شدت میں جسم سے خون بہنا شروع ہو سکتا ہے اور موت واقع ہو سکتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب دیا ہے ڈینگی پر کام کرنے والی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے۔
نیویارک کی راک فیلر یونیورسٹی میں مالیکولر جنیٹکس کے شعبے کے سربراہ جیفری ریوٹچ کی قیادت میں کام کرنے والے سائنس دانوں کو پتا چلا ہے کہ جب ڈینگی کا وائرس دوسری بار کسی انسان پر حملہ کرتا ہے تو وہ ان خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے جو بیماریوں کے خلاف لڑنے والا معدافعتی نظام تشکیل دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ ڈینگی سے متاثرہ خلیوں کے سبب جسم کا معدافعتی نظام وائرس کی ساخت کو درست طور پر شناخت نہیں کر پاتا اور اسے روکنے کی بجائے مرض بڑھانے میں اس کی مدد کرنے لگتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ معدافعتی خلیے وائرس کو دوست سمجھتے ہوئے صحت مند خلیوں پر حملے میں اس کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔
جیفری ریوٹچ کی قیادت میں کام کرنے والی بین الاقوامی سائنس دانوں کی ٹیم بھٹک جانے والی اینٹی باڈیز کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جو ڈینگی کے شديد حملے میں جسم سے خون بہنے کا سبب بنتی ہیں۔
سائنسی جریدے’ سائنس ‘میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس دریافت سے مرض کی تشخیص آسان ہوگئی ہے اور پہلے سے یہ پتا چلانا ممکن ہو گیا ہے کہ آیا بخار میں مبتلا مریض واقعتا خطرے میں ہے۔ جس سے اس کے علاج پر خصوصي توجہ دی جا سکتی ہے اور اس کے جسم میں خون اور پانی کی مقدار پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
فی الوقت ڈینگی کے شديد حملے کا کوئی علاج موجود نہیں ہے اور علاج کے دوران اس کی حفاظتی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
جیفری ریوٹچ کہتے ہیں یہ دریافت ہونے کے بعد کہ ڈینگی کے حملے میں جسم سے خون کے اخراج کا سبب کیا ہے، اس کی روک تھام کے لیے ایک مؤثر ویکسین بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
اس وقت ڈینگ واکسیا کے نام سے موجود ویکسین زیادہ مؤثر نہیں ہے اور صرف 60 فی صد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بعض واقعات میں یہ ویکسین شديد نوعیت کا ڈینگی پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
ریوٹچ کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس، زکا وائرس کے ہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ زکا وائرس بچوں میں پیدائشی نقائص اور پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس کا مؤثر دوا دریافت ہونے سے زکا وائرس کے علاج کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔