پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی غیر معمولی کمی کو بعض افراد کے مابین غلط فہمی اور مناسب معلومات کے فقدان کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ذمہ افراد کا تعین کرنے کے لیے اس معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی۔
واضح رہے کہ بدھ کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی ہوئی تھی اور ایک دن میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر لگ بھگ تین فیصد کم ہونے کے بعد ایک ڈالر کی قیمت 108.10 روپے ہو گئی تھی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قبل ازیں ملک میں جاری سیاسی صورت حال کو اس کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض عناصر صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے ذمہ دار ہیں۔
لیکن جمعرات کو ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری مالیاتی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ایک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اسحاق ڈار نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی صحیح معلومات کے فقدان کی وجہ سے ہوئی جس کے ذمہ دار ان کے بقول ادارے نہیں بلکہ بعض افراد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں گزشتہ روز ہونے والی کمی ایک مصنوعی تبدیلی تھی اور ذمہ دار افراد کا تعین کرنے کے لیے اس معاملے کی جامع چھان بین کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان سمیت کسی فرد کو اتنا بڑا فیصلہ کرنے اور روپے کی قدر ایڈجسٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
اسحاق ڈار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر سے زائد ہیں اس لیے ان کے خیال میں کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اتنی نمایاں کمی واقع ہو۔
وزیر خزانہ نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ جمعرات کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری ہوئی ہے اور دو روپے 74 پیسے کی کمی کے بعد اب ایک ڈالر 105 روپے 50 پیسے کا ہو گیا ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 2014ء سے مستحکم ہے اور انٹر بینک ریٹ کے مطابق ایک ڈالر کی قیمت 104 روپے اور 80 پیسے کے لگ بھگ رہی ہے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرحِ قدر اپنی حقیقی شرحِ قدر کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
بعض ماہرینِ معیشت کا موقف ہے کہ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے تو یہ ملک کی برآمدات کے لیے بہتر ہو گا۔ البتہ اس رائے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے غیرملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی منفی اثر ہو سکتا ہے۔