کشیدگی سے بے پروا بھارتی مصنوعات کے پاکستانی پرستار

کسی نے روزمرہ گاہکوں کو یہ اطلاع بھی دی کہ ’’دوطرفہ تعلقات آج مزید کشیدہ ہوگئے‘‘ تو بھی انہوں نے صرف اتنا کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہ ’’اللہ مالک ہے ۔۔کشیدگی کون سی نئی بات ہے۔ کچھ دنوں تک یہی سب کچھ چلے گا پھر سب کچھ نارمل ہوجائے گا‘‘

بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ اور پاکستان کی تردید نے جمعرات کو جہاں انگنت لوگوں کو پریشان کئے رکھا وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کراچی کے مخصوص گلی کوچوں میں سارا دن معمول کے مطابق بھارتی مصنوعات کی خرید و فروخت میں لگے رہے۔

کسی نے روزمرہ گاہکوں کو یہ اطلاع بھی دی کہ ’’دوطرفہ تعلقات آج مزید کشیدہ ہوگئے‘‘ تو بھی انہوں نے صرف اتنا کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہ ’’اللہ مالک ہے ۔۔کشیدگی کون سی نئی بات ہے۔ کچھ دنوں تک یہی سب کچھ چلے گا پھر سب کچھ نارمل ہوجائے گا۔‘‘

کراچی شہر کے پرانے گلی کوچوں کے کئی بازار ایسے ہیں جہاں بھارتی مصنوعات کے پرستاروں کا تانتا بندھا رہتا ہے، مثلاً لی مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ اور موتن داس میں بھارتی پروڈکٹس پاکستانی مصنوعات سے بھی زیادہ قیمتوں پر ملتی ہیں اور لوگ انہیں بڑے چاؤ سے خریدتے ہیں۔

ان مصنوعات سے لگاؤ کا سبب کیبل ٹی وی اور اس پر آنے والے انڈین چینلز ہیں جن کے دوران ہر قسم کی مصنوعات کے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔

شہر کے پرانت علاقوں میں اب بھارتی مصنوعات فروخت کرنے والی دکانوں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے اور شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ اب یہ مصنوعات شہر میں جگہ جگہ واقع تمام سپر اسٹورز میں بھی ملنے لگی ہیں۔

لی مارکیٹ کے ایک دکاندار انور علی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اس وقت شہر بھر میں سینکڑوں برانڈ کی بھارتی مصنوعات دستیاب ہیں۔ شیمپو کے ساشے سے لیکر ساڑھیوں اور بنارسی کپڑے تک ہر چیز یہاں بکتی ہے۔ نمکو، بھجیا، بسکٹ، ہاضمے کے چورن، تیل، شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ، ادویات، میک اپ کا سامان، ناریل، انناس و دیگر پھل، پان، تمباکو، چھالیہ، گڈکھے، ڈائینگ کلرز اور یہاں تک کہ میڈیکل، کمپیوٹرز، کامرس، انجینئرنگ بکس، رسالے، اخبارات اور ردی تک جو چیز آپ چاہیں یہیں مل جائے گی۔‘‘

یہ مصنوعات اور برانڈ اتنے مشہور ہیں کہ بچوں کی اکثریت بھی نام سن کر بتادے گی کہ یہ کون سی پروڈکٹ ہے اور کس کام آتی ہے۔ یہیں نہیں بلکہ اولڈ سٹی علاقوں کی پتلی پتلی گلیوں میں چلتے پھرتے لوگ دونوں ممالک کی کرنسی ایکسچینج کرتے نظر آجائیں گے۔ ان گلیوں میں آپ داخل ہوئے نہیں کہ آپ کو ایجنٹس پکارنا شروع ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات ان سے نظریں چرانا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

علاقے کے تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں تمام سامان لاہور اور دبئی سے ملتا ہے۔ بھارت سے آنے والے بیشتر لوگ ٹرین کے ذریعے آتے ہیں اور لاہور اترتے ہی اپنے ساتھ لایا ہوا سامان فروخت کر دیتے ہیں جو لاہور کے بعد سب سے زیادہ کراچی منتقل کردیا جاتا ہے جبکہ دبئی بھارتی سامان کی سب سے بڑی منڈی ہے، فری پورٹ ہونے کے سبب وہاں سے بھی تمام مصنوعات پاکستان اسمگل کردی جاتی ہیں۔

لاہور۔۔ چھوٹا بھارت
لاہور کا انار کلی بازار اور اس میں واقع ’پان منڈی‘ بھارت سے اسمگل ہو کر آنے والی اشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے شاید اسی لئے خریدار اسے ’منی انڈیا‘ یا ’چھوٹا بھارت‘ بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے تاجر بھی دوطرفہ تعلقات کی خرابی یا کشیدگی سے بے پروا ہیں۔

بیشتر تاجروں کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسا ہوچکا ہے، لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اب بھی نہیں ہوگی۔ بھارتی اشیا کی یہاں مارکیٹ ہے اور بھارتی ہمیں مراعات بھی دیتے ہیں۔ جو چیز بھارت میں 10 روپے کی ملتی ہے وہ برآمد کنندگان کو آٹھ روپے کی دیتے ہیں۔ اگران کا تمام مال بھارت میں ہی فروخت ہوجاتا تو وہ کم قیمت میں ہمیں کیوں دیتے؟‘‘

پان منڈی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر، ابراہیم خلیل نے انگریزی روز نامہ ’ایکسپریس ٹری بیون‘ کو بتایا کہ’’بہت سی ایسی اشیا ہیں جو ڈائرکٹ ٹریڈ لسٹ میں شامل نہیں اور بھارت سے دبئی کے راستے پاکستان پہنچتی ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈائرکٹ ٹریڈ یا براہ راست تجارت رک بھی جائے تب بھی جن چیزوں کی مانگ ہے وہ افغانستان اور دبئی سے آجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بھارتی کپڑا دبئی سے پاکستان آتا ہے۔ دبئی میں وہ کپڑے پر چین کی مہر لگاتے ہیں اور پاکستان کو فروخت کر دیتے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق، سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی بلاتعطل جاری رہنے کی توقع ہے۔