مقامی حکام اور واپڈا کے ترجمان نے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقے اپر کوہستان میں زیرِ تعمیر داسو ڈیم پر تعمیراتی کام کی بندش کی تصدیق کی ہے۔ اس سے قبل حکام کا یہ دعویٰ رہا تھا کہ ڈیم پر کام زور و شور سے جاری ہے۔
حکام اور واپڈا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ منصوبے پر کام مکمل طور پر رکا ہوا ہے۔ جب کہ اپر کوہستان کے ڈپٹی کمشنر محمد عارف یوسفزئی نے اس معاملے پر کسی قسم کے تبصرے یا معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔
عارف یوسفزئی نے 25 اگست کو اس منصوبے پر تعمیراتی کام زور وشور سے جاری رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔
معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ
واپڈا حکام کا کہنا ہے کہ چینی کمپنی گیژوبا گروپ کارپوریشن نے 14 جولائی 2021 کو ہونے والے واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لیے معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم معاوضے کی نوعیت یا تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔
حکام کا مؤقف ہے کہ اس سلسلے میں چینی کمپنی کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور بہت جلد حکومتِ پاکستان معاوضے کی ادائیگی کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کر لے گی۔
واپڈا کے ترجمان رانا عابد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داسو حملے میں ہلاک ہونے والے چینی انجینئرز کے متبادل کا بندوبست کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
اُن کے بقول سیکیورٹی پلان تشکیل دیا جا چکا ہے جب کہ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کی سربراہی میں قائم سٹیئرنگ کمیٹی بھی ڈیم کی تعمیر دوبارہ شروع کرنے کا معاملہ دیکھ رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت بھی اِس بارے میں چینی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ منصوبے پر کام دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
رانا عابد کا کہنا تھا کہ داسو ڈیم جیسے منصوبوں کے کانٹریکٹ میں حادثات میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے لیے معاوضے کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور اس معاوضے کی شرح فریقین کے اتفاقِ رائے سے طے ہوتی ہے۔
چینی کمپنی نے تاحال اس معاملے پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی اُن کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر پر دوبارہ کام کب شروع ہو گا۔
ادھر قبائلی ضلع مہمند میں دریائے کابل پر زیرِ تعمیر مہمند ڈیم کی تعمیر کا کام بھی بند ہے۔ ضلع مہمند سے ممبر قومی اسمبلی نثار احمد مہمند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اپر کوہستان کے واقعے کے بعد صرف چینی کمپنی نے کام بند کر دیا ہے جب کہ ملکی اور دیگر کمپنیاں یہاں کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چودہ جولائی کو ہوا کیا تھا؟
چودہ جولائی کو داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر چینی انجینئرز اور مقامی ملازمین پر مشتمل تعمیراتی ٹیم کو رہائشی کیمپوں سے کام کی جگہ لے کر جانے والی ایک کوچ میں بالائی کوہستان میں دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں نو چینی باشندوں سمیت 13 افراد ہلاک جب کہ 28 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے نتیجے میں نہ صرف اس ڈیم پر چند دنوں کے لیے تعمیری کام کا سلسلہ متاثر ہوا تھا بلکہ اس سے پاکستان بھر میں مختلف علاقوں میں تعمیری اور کاروباری شعبوں سے منسلک چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے بارے میں تشویش کی لہر پیدا ہوئی تھی۔ تاہم بعد میں حکومتِ پاکستان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک ہونے اور چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی ہدایت کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں سی پیک منصوبوں سمیت لگ بھگ 45 چینی کمپنیاں مختلف تعمیراتی منصبوں پر کام کر رہی ہیں۔
چودہ جولائی کو پیش آنے والے واقعے کو پاکستان حکام نے ابتداً ایک حادثہ قرار دیا تھا مگر بعد ازاں مفصل تحقیقات کے بعد ا سے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا گیا تھا۔