ہم کچھ ہفتوں سے اس موضوع پر بات کرتے آرہے ہیں کہ کرونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی اور اس موضوع پر ممتاز دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی رائے آپ تک پہنچا رہے ہیں۔
یہ سوچتے ہوئے کہ اگر میرے سامنے یہ سوال اپنی پوری شدت سے جواب کا تقاضہ کرتا ہے تو میرے ساتھ آپ میں سے بہت لوگ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی لمحے اپنے کام کرتے کرتے ایک دم زندگی کے ’نیو نارمل‘ کو انجان نظروں سے دیکھتے ہوئے خود سے سوال کرتے ہونگے کہ آخر زندگی کا یہ نیا انداز کبھی ختم ہو گا؟ کیا زندگی ایک بار پھر اپنی پرانی ڈگر پر جا پائے گی؟ اسی طرح کے کئی واہمے ساتھ چلتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس طرح کی بے یقینی اور غیر متوقع اتار چڑھاؤ نے ایک بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں تیار ہونا چاہئے یہ تسلیم کرنے کے لئے کہ کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے کے بعد بھی زندگی کے معمولات ایک دم ویسے نہیں ہو جائیں گے جیسے کرونا وائرس سے پہلے تھے۔
کرونا وائرس سے پہلے کا معمول اب ایک نئی شکل میں سامنے آئے گا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ دو واضح رد عمل سامنے آئیں گے۔ ایک تو زندگی سے بھرپور محبت اور پوری طرح سے لطف اندوز ہونے اور ساری خوشیاں سمیٹ لینے کا ردعمل۔
لیکن، ایک عجیب احتیاط اور فاصلے کے ساتھ۔ اور دوسرا ردعمل موت کی ارزانی دیکھنے کے بعد زندگی کو مزید تحفظ دینے کا ردعمل۔ پہلے سے کہیں زیادہ محتاط ہونے کا ردعمل، گھروں سے باہر نہ جانے اور دوست احباب کی محفلیں کم سے کم رکھنے کا ردعمل۔
کیا واقعتا زندگی ایک بار پھر پورے اعتماد اور مضبوطی کے ساتھ اور اپنی رنگینیوں کے ساتھ ’نیو نارمل‘ کو بھرپور انداز میں قبول کر لے گی؟ سوال کچھ زیادہ اور جواب کم تو نہیں؛ لیکن بہت مختلف۔ ڈاکٹر زمرد اعوان نے ہمیں بتایا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد کی زندگی ان کے خیال میں کیسی ہوگی۔
ڈاکٹر زمرد اعوان ایف سی کالج یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ درس و تدریس کے علاوہ اپنے آن لائن پروگراموں میں وہ اہم اور حساس موضوعات پر تجزئے پیش کرتی ہیں۔
ڈاکٹر زمرد اعوان کا خیال بھی یہی ہے کہ کرونا وائرس کے بعد زندگی کا انداز کافی مختلف ہوگا، نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اداروں، معاشروں اور حکومتوں کی سطح پر صورتحال بدل جائے گی۔
ڈاکٹر اعوان کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی وبا دراصل نوع انسانی کے لئے ایک ’ویک اپ‘ کال کی طرح ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد کی زندگی میں روحانیت کا پہلو قدرے بڑھ جائے گا، کیونکہ عبادت گاہوں کے بند ہونے کے بعد لوگوں نے انفرادی سطح پر اس جانب توجہ مرتکز کی ہے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں لوگ اپنے خاندان اور عزیزو اقارب کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت سمجھنے لگے ہیں اور اپنی ذات کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے انہیں داخلی سطح پر اپنی شخصیت کو پہچاننے میں مدد ملی ہے۔
ڈاکٹر زمرد کہتی ہیں کہ کرونا وائرس کے بعد زندگی امتحان بھی لے کر آئے گی نہ صرف قوموں کے لئے بلکہ حکمرانوں کے لئے بھی۔ ملکوں کی اہلیت اور صلاحیت جانچنے کے معیار ہی بدل جائیں گے۔
ڈاکٹر اعوان کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا نے کام کرنے کا انداز ہی بدل ڈالا ہے۔ ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے گھروں پر رہ کر کام کرنے کا نیا ڈھنگ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اور اب ذہانتوں اور صلاحیتوں کی جانچ کرتے ہوئے ایک اور شرط سامنے آئے گی کہ لوگ آنے والے وقتوں میں ان نئے ٹولز میں مہارت کے حامل ہوں۔
آنے والے نئے دور میں جدید صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ میل ملاپ کے پرانے طریقوں میں کیا نئی شرطیں چپکے سے در آئیں گی؟ کچھ کہنا دشوار ہے۔ لیکن، ایک بات یقینی ہے کہ عشروں سے میل ملاپ کا جو انداز ہم دیکھتے آئے ہیں اس کی شکل کافی حد تک مختلف ہو جائے گی۔