افغانستان کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو بتایا کہ یورپی یونین نے کابل کے اندر اپنا سفارتی دفتر باضابطہ طور پر کھول دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس اور افغانستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ٹوئٹڑ پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے اندر یورپی ڈپلومیٹک آفس نے باضابطہ طور پر کام شروع کر دیا ہے۔
’’ یورپی یونین کے نمائندوں کے ساتھ تعمیری ملاقاتوں کے بعد یورپی یونین نے باضابطہ طور پر کابل میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا ہے جہاں ان کی مستقل موجودگی ہو گی اور آپریشنز بحال ہوں گے‘‘
وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے اپنے ٹوئٹ میں مزید بتایا ہے کہ یورپی یونین نے 22 کروڑ یورو کی فلاحی امداد کے علاو ہ 26 کروڑ 80 لاکھ یورو کی اضافی امداد کا اعلان کیا ہے‘‘
ان کے بقول اس رقم کا کچھ حصہ اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
آریانا نیوز کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب طالبان کی حکومت نے گزشتہ بدھ کو بین الاقوامی برادری سے درخواست کی تھی کہ وہ ’اسلامی امارت افغانستان‘ کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں جو امریکی حمایت والی افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس وقت ملک کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ بیان وزیراعظم ملا حسن اخوند نے کابل میں ہونے والی ایک روزہ اکنامک کانفرنس میں دیا تھا جہاں بعض ممالک اور اقوام متحدہ کے نمائندے بھی موجود تھے۔
ریڈیو فری ایشیا کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین نے گزشتہ اکتوبر میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے اندر اپنے سفارتی دفتر کو کھولنے پر غور کر رہے ہیں لیکن اس کا مقصد طالبان کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کی ترجمان نبیلہ مسرالی نے کہا تھا کہ دفتر کھولنے کا مقصد افغانستان کے اندر کم از کم سطح پر موجودگی برقرار رکھنا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے بھی ایسی ہی رپورٹ 24 اکتوبر کو جاری کی تھی۔ رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی افغانستان میں موجودگی کو ’ ڈپلومیٹک ڈیلیگیشن‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کا مقصد انسانی حقوق کے ضمن میں رابطہ کاری اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور افغانستان کو دوبارہ دہشتگردوں کی جنت نہ بننے دیں۔
طالبان کا وفد ناروے کے دورے پر
ایک اور پیش رفت میں ناروے کی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز بتایا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے نمائندوں کا ایک وفد انسانی ہمدردی کے بحران میں کمی لانے سے متعلق بات چیت کے لیے تین روزہ دورے پر اتوار کو ناورے پہنچ رہا ہے۔
SEE ALSO: معیشت کے سوا طالبان کی حکومت میں سب اچھا ہے، ملا عبدالسلام ضعیفناروے کی وزیر خارجہ اینیکن ہویٹ فلڈٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان ملاقاتوں کا مطلب طالبان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا نہیں ہے، لیکن ہمیں لازمی طور پر اس ملک کے موجودہ حکام سے ہی بات کرنا ہو گی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ " ہم سیاسی صورت حال میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ انسانی بحران مزید ابتری کی جانب بڑھے"۔
گزشتہ سال اگست کے وسط میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے، جس کے نتیجے میں امدادی پروگراموں میں خلل پڑا اور خوراک کی صورت حال تنزلی کی طرف گئی ،لاکھوں افغان انتہائی غربت کی دلدل میں گر چکے ہیں۔
طالبان کے نمائندے 23 سے 25 جون کے دوران ناورے کے حکام کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے ملکوں کے سفارت کاروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
ناورے میں اپنے قیام کے دوران طالبان کے وفد اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افغانوں کے درمیان بھی اجلاس ہوں گے، جن میں خواتین راہنما، صحافی، انسانی حقوق اور امدادی سرگرمیوں سے منسلک سرگرم کارکن، اقتصادی ، سماجی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والی افغان شخصیات بھی شامل ہوں گی۔