کیا جس دنیا میں ہم انسان بستے ہیں وہ اس پوری کائنات میں ایک واحد جگہ ہے جہاں زندگی اپنا مسکن بنا سکی ہے یا پھر کائنات میں زمین کے علاوہ اور بھی عالم موجود ہیں جہاں حیات ممکن ہے یا پھر وہاں خلائی مخلوق بستی ہے جو اس بات کے منتظر ہیں کہ ہم انھیں تلاش کریں۔
اس حوالے سے آج کی خلائی تلاش 'کوسمک پلورلزم' کے نظریے کے امکان کو تسلیم کرتی ہے کہ اگر کوئی سیارہ کسی سورج نما ستارے سے اس قدر مناسب فاصلے پر ہو جو انسانوں کو حاصل ہے اور وہاں زندگی کے لیے درکار بنیادی اجزاء آکسیجن پانی وغیرہ بھی دستیاب ہوں اور اس کے اطراف ایک ایسا کرہ ہوا ہو جو حیات کو تابکاری شعاعوں سے بچا سکتا ہے تو پھر سالمات کا ایک ایسی ترکیب وترتیب میں آ جانا ناممکن نہیں ہے جو زمین میں موجود جانداروں کی زندگی کو ممکن بناتی ہے۔
ایک اہم تحقیق کے نتیجے میں بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے زمین کی طرح کے ممکنہ طور پر رہائش کے قابل تین سیارے دریافت کئے ہیں جن پر اجنبی مخلوق کی آبادی کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
اس تازہ ترین تحقیق کے نتائج کا اعلان پیر کو کیا گیا ہے۔ جس میں سائنس دانوں نے نظام شمسی سے باہر نو دریافت سیاروں کے بارے میں بتایا کہ یہ سیارے ایک چھوٹے اور سورج سے نسبتاً ٹھنڈے ستارے کے گرد اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔
ناسا کے ماہرین پہلے ہی یہاں زندگی کی علامات تلاش کرنے کے لیے اسپٹزر خلائی دوربین کا استعمال کر رہے ہیں۔
ناسا کے محققین کی ایک ٹیم آئندہ ہفتے ایک طاقتور دوربین ہبل کے ذریعے ان سیاروں کا مطالعہ شروع کرے گی۔
فلکیات کا مشاہدہ کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ یہ نئی دنیا نظام شمسی سے باہر زندگی کی علامات کی تلاش کے لیے ایک مثالی دنیا ہو سکتی ہے۔
بیلجیئم کی یونیورسٹی ڈی لییج، امریکی خلائی ادارے ناسا اور فلکیات کے دیگر تربیتی مرکز سے وابستہ سائنس دانوں نے بین الاقوامی تحقیقی جریدہ 'نیچر ' میں اپنے مطالعے کے نتائج جاری کئے ہیں۔
مطالعے کی قیادت کرنے والے لییج یونیورسٹی سے وابستہ آسٹروفزکس کے پروفیسر مائیکل گیلون نے این پی آر کو بتایا کہ ''اگر ہم کائنات میں کہیں اور زندگی تلاش کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں سب سے پہلے نظر ڈالنی چاہیئے''۔
انھوں نے کہا کہ یہ دریافت انتہائی اہم ہے ناصرف اس لیے کہ ان سیاروں کی خصوصیات زمین جیسی ہے بلکہ یہ زمین سے نسبتاً قریب ہیں اور ہمارے سیارے سے 40 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اب تک دریافت کیے جانے والے پہلے سیارے ہیں جو ایک کم روشنی والے ستارے کے گرد اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
انتہائی ٹھنڈا بونا ستارہ ( ٹریپسٹ ون)
محققین نے کہا کہ یہ اب تک دریافت کئے جانے والے پہلے سیارے ہیں جو ایک انتہائی ٹھنڈے بونے ستارے کے ارد گرد ملے ہیں جبکہ اجنبی زندگی کی کھوج کے حوالے سے دریافت کیے جانے والے پہلے سیارے بھی ہیں۔
ان میں سے ہر سیارہ 'زمین' یا 'زہرا' کے حجم کے برابر ہے اور شاید پتھریلا ہے۔
جس سرخ ستارے کے گرد وہ گھوم رہے ہیں وہ سورج کی کمیئت کے صرف آٹھ فیصد کے برابر ہے اور بمشکل سیارہ مشتری سے تھوڑ ا بڑا ہے۔
اس ستارے کو سائنس دانوں نے' ٹریپسٹ ون' کا نام دیا ہے۔
تازہ ترین دریافت کے لیے محققین نے ایک چھوٹی دوربین ٹرپپسٹ کا استعمال کیا ہے جو چلی کیی لا سیلا رصدگاہ میں نصب کی گئی تھی۔
نو دریافت سیاروں پر زندگی کی کھوج :
سائنس دانوں کا اندازا ہے کہ ان سیاروں کے مدار کے اوقات اور ان سیاروں کی اپنے ستارے سے دوریاں اور ان سیاروں کے چھوٹا ہونے کی خصوصیات بتاتی ہیں کہ یہ وہ دنیا ہے جہاں ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے ساتھ زندگی کا پتہ لگانے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
اس تحقیق میں مصروف میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ ٹیکنالوجی سے منسلک جولین ڈی وٹ نے کہا کہ ''ان سیاروں کا حجم زمین کے برابر ہے اور ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ یہ زندگی کے قابل ہو سکتے ہیں۔''
بقول محقق جولیئن ''یہ ستارے ہم سے بہت قریب ہیں۔ ان کے پاس معتدل ماحول ہے اور ان کا ستارہ بہت چھوٹا ہے۔ ہم وہاں ان کے ماحول اور ساخت کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور یہ زندگی کی تلاش کے لیے بہترین مقامات ہیں جہاں شاید حقیقی معنوں میں خلائی مخلوق کا وجود ہو سکتا ہے اور اب ہمیں اس کا انتظار ہے۔‘‘
ان کے مطابق ''یہ تمام چیزیں قابل حصول ہیں اور اب پہنچ کے اندر ہیں اور یہ اس فیلڈ کے لیے ایک لاٹری ہے۔''
زمین جیسے سیاروں کا مطالعہ
نظام شمسی سے باہر ان چھوٹے ستاروں کو اکثر نظر انداز کر دیا گیا تھا جب تک لییج یونیورسٹی سے وابستہ محقق مائیکل گیلون نے ان بونے ستاروں میں سے ایک کے ارد گرد خلا کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔
انھوں نے ستمبر 2015ء سے 62 راتوں کے دوران ان بونے ستاروں کی چمک میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے ٹرپپسٹ دوربین کا استعمال کیا۔ وہ اور ان کی ٹیم نے وہاں گرہن کی طرح کے سائے دیکھے جو کہ ستارے کی روشنی کے مستحکم پیٹرن میں رکاوٹ تھے۔
سان ڈیاگو یونیورسٹی میں خلائی علوم کے ماہر پروفیسر ایڈم برغاسر نے کہا کہ ''وہاں روشنی میں صرف ایک فیصد ڈپ تھا لیکن مخصوص پیٹرن سیارے کی موجودگی کے لیے ایک اچھی علامت تھی۔''
لییج یونیورسٹی کے محققین کی ٹیم میں شامل مائیکل گیلون اور عمانوایل جیہین نے بتایا کہ ہم انتہائی ٹھنڈے بونے ستارے کے گرد نئے سیاروں کی گردش کی نگرانی کرنے کے قابل تھے۔
ان کے مطابق جب ہم کسی سیارے سے آتی ہوئی روشنی کو اس کے ستارے کی روشنی کے آگے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ستارہ جو کہ سیارے کے مقابلے میں بڑا اور روشن ہوتا ہے اس کے سامنے سیارے سے آتی ہوئی روشنی مدھم ہوجاتی ہے۔ جبکہ اس ستارے کی روشنی انتہائی دھیمی ہے البتہ اسے خالی آنکھ یا دوربین کی مدد سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
اندرونی اور بیرونی سیارے ٹریپسٹ ون بی ،ٹریپسٹ ون سی اور ٹریپسٹ ون ڈی
مطالعے کے شریک مصنف عمانو ایل جیہین نے کہا کہ اب تک اس طرح کی سرخ دنیاؤں کا ٹھنڈے ستاروں کے گرد وجود خالصتاً نظریاتی تھا لیکن اب ہم نے ایک مدھم سرخ ستارے کے گرد ایک تنہا سیارے کو نہیں بلکہ تین سیاروں کا نظام دریافت کیا ہے۔
دریافت شدہ ستارہ ٹریپسٹ ون اور اس کے تین سیارے جنھیں ٹرپسٹ ون بی اور ٹرپسٹ ون سی اور ٹرپسٹ ون ڈی کا نام دیا گیا ہے یہ ایک دوسری کہکشاں کونسٹی لیشن ایکوریئس (دلو ) میں واقع ہیں۔
محققین نے بتایا کہ دو اندرونی سیارے ٹریپسٹ ون بی اور سی نے اپنے ستارے کے گرد ایک چکر زمینی دنوں کے مطابق بالترتیب 1.51 اور 2.42 دنوں میں مکمل کر لیا۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین سے ہمارے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں یہ سیارے اپنے ستارے سے 20 سے 100 گنا قریب ہیں۔
یہ دو سیارے زمین کے مقابلے میں اپنے ستارے سے تقریبا چار گنا تابکاری وصول کررہے تھے جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ رہنے کے قابل جگہیں ہیں۔
تیسرا سیارہ ٹرپپسٹ ون ڈی کے گردشی چکر کی مدت 4.5 دنوں سے لیکر 73 زمینی دنوں کے برابر ہو سکتی ہے۔
جبکہ یہ بیرونی سیارہ زمین کے مقابلے میں اپنے محور سے دوگنی تابکاری وصول کر رہا تھا لیکن یہ بھی ممکنہ طور پر قابل رہائش دنیا ہوسکتی ہے۔
خلائی علوم کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ چاند کی طرح سیارے ہمیشہ اپنے ستارے کے ایک حصے کا سامنا کرتے ہیں اور سیارے کے ایک حصے میں ہمیشہ تاریکی رہتی ہے جبکہ دوسرے حصے میں ہمیشہ دن رہتا ہے۔
محققین نے کہا کہ یہ نتائج ایک مطالعے کی صرف ابتداء ہے جو ایک سال تک جاری رہے گا محققین پہلے ہی سے ان سیاروں پر پانی اور میتھین مالیکیول کی تلاش کے لیے ایک مشاہدے پر کام کررہے ہیں۔
تاہم سائنس دانوں نے واضح کیا کہ یہ سیارے ہم سے قریب ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جلد ہی ان تک پہنچ جائیں گے۔ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ان سیاروں تک پہنچنے کے لیے ہمیں لاکھوں برس لگ جائیں گے تاہم تحقیقی نقطہ نظر سے یہ ہماری زمین اور نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش کے لیے ایک موقع اور قریب ترین ہدف ہے۔
ماورائے شمس سیاروں کی کھوج میں خلائی دوربین اس بات کا کھوج لگاتی ہے کہ کوئی سیارہ اپنے ستارے سے کتنے فاصلے پر موجود ہے۔ اس بات کے تعین کے لیے کہ وہاں زندگی کے آثار ہیں یا نہیں کسی بھی ستارے سے اس کے سیارے کا گردشی فاصلہ ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔