|
امریکہ کی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ اُمور پاکستان میں عام انتخابات کے بعد کی صورتِ حال سے متعلق 20 مارچ کو سماعت کرے گی۔
جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کو اس سماعت میں بطور واحد گواہ مدعو کیا گیا ہے۔
سماعت کو 'پاکستان انتخابات کے بعد؛ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کا جائزہ اور پاکستان، امریکہ تعلقات' کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ سماعت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔
ان جماعتوں میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سرِفہرست ہے جس کا دعویٰ ہے کہ بڑے پیمانے پر اُن کے مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ کمیشن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ دھاندلی کے الزامات کے لیے ٹربیونلز اور عدالتیں موجود ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی اور آزاد صحافت دیکھنا چاہتے ہیں: امریکہپاکستان کا ردِعمل
کانگریس کمیٹی کی سماعت پر ردِعمل دیتے ہوئے ترجمان دفترِ خارجہ پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس معاملے سے آگاہ ہے۔
جمعرات کو دفترِ خارجہ میں معمول کی بریفنگ کے دوران ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ "پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور تمام معاملات پر تعمیری روابط پر یقین رکھتا ہے۔"
ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم بین الاقوامی مسائل پر بحث کے لیے قانون ساز اداروں کے استحقاق کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم اُمید رکھتے ہیں کہ امریکی کانگریس پاکستان اور امریکہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور باہمی تعاون کی راہیں استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
پاکستانی سیاست میں ڈونلڈ لو کی گونج
ڈونلڈ لو کی بطور گواہ سماعت میں شرکت کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ گزشتہ دو برس کے دوران مذکورہ امریکی سفارت کار کا نام پاکستان کی سیاست میں گونجتا رہا ہے۔
عمران خان اپریل 2022 میں اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکہ کو ذمے دار قرار دیتے آئے ہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل ایک جلسۂ عام میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ امریکی سفارتی اہل کار ڈونلڈ لو نے واشنگٹن ڈی سی میں تعینات پاکستان کے سفیر کو حکومت میں تبدیلی کی دھمکی دی تھی۔
امریکہ عمران خان کے عائد کردہ الزامات کی کئی بار تردید کر چکا ہے۔
بعد ازاں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مختلف انٹرویوز میں امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ"سائفر معاملہ ختم ہو چکا ہے اور میں اب آگے بڑھ چکا ہوں۔"
پاکستان میں انتخابات کے فوری بعد مختلف امریکی ارکانِ کانگریس کی جانب سے انتخابات کی شفافیت سے متعلق سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
چند روز قبل 30 سے زائد ارکانِ کانگریس نے صدر بائیڈن اور وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کو اس ضمن میں ایک خط بھی لکھا تھا۔
خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی شفاف تحقیقات تک پاکستان میں نئی بننے والی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس خط پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خط امریکہ کے کچھ قانون سازوں نے اپنی حکومت کے لیے لکھا ہے۔ چوں کہ یہ خط پاکستان کی حکومت یا کسی ادارے کو نہیں لکھا گیا اس لیے دفترِ خارجہ اس خط پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔