امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل کا طے شدہ دورہ "ملتوی" کرنے کا اعلان کیا ہے۔
'ٹوئٹر' پر ایک پیغام میں اپنےمتنازع بیانات کے باعث مشہور ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو سے بات چیت کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد اسرائیل کا دورہ کریں گے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی عائد کرنے کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس پر اسرائیلی پارلیمان کے ارکان نے بھی انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے دورے کی مخالفت کی تھی۔
ارب پتی ڈونالڈ ٹرمپ نے چند روز قبل امریکی ریاست جنوبی کیرولائنا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پرمکمل پابندی ہونی چاہیے۔
ٹرمپ کے اس بیان پر نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ کےبھی کئی حلقوں اور رہنماؤں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی پارلیمان کے 37 یہودی اور عرب ارکان نے حکومت کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں اس سے ڈونالڈ ٹرمپ کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ارکانِ پارلیمان نے اپنے خط میں اسرائیلی وزیرِاعظم کو بھی تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب ری پبلکن صدارتی امیدوار کے نسل پرستانہ بیان کی دنیا بھر میں مذمت ہورہی ہیں، بینجمن نیتن یاہو ان کے استقبال کے لیے بے چین ہیں۔
بیان میں اسرائیلی ارکانِ پارلیمان نے کہا تھا کہ وزیرِاعظم نیتن یاہو کی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات اسرائیل کی جمہوری شناخت کے منافی ہوگی اور اسرائیل کے مسلمان شہریوں کی دل آزاری کا باعث بنے گی۔
مذکورہ خط کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر نے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں وضاحت کی تھی کہ نیتن یاہو مسلمانوں کے متعلق ڈونالڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کو مستردکرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ نیتن یاہو کی کسی امریکی صدارتی امیدوار سے ملاقات کا مطلب یہ نہیں کہ اسرائیلی وزیرِاعظم اس کے نظریات کی بھی توثیق کرتے ہیں بلکہ یہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان موجود قریبی تعلق کا ایک اظہار ہے۔
اپنے دورۂ اسرائیل کی منسوخی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد امریکی نشریاتی ادارے 'فوکس نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے بتایا کہ انہوں نے اپنا دورہ اس لیے منسوخ کیا کیوں کہ وہ اسرائیلی وزیرِاعظم کا دباؤ کا شکار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دورے کی منسوخی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس وقت اپنی انتخابی مہم میں بری طرح مصروف ہیں اور ان کے لیے اس دورے کے لیے وقت نکالنا کافی مشکل تھا۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر نے وضاحت کی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے کی منسوخی میں اس کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد وزیرِاعظم نیتن یاہو کا ان سے کوئی رابطہ ہوا ہے۔
امریکی صدارت کے امیدواروں کی جانب سے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے قریبی اتحادی ملکوں کا دورہ کرنا ایک روایت ہے اور کئی امیدوار اپنی مہم کے دوران اسرائیل بھی جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے اسرائیلی کے دورے کی منسوخی کے فیصلے کو ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخابی مہم کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ٹرمپ اس وقت ری پبلکن امیدواران میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔