|
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملک کے 47ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں، انہوں نے نائب صدر کاملا ہیرس کو شکست دے کر وائٹ ہاؤس میں جنوری سے شروع ہونے والی نئی چار سالہ ٹرم حاصل کر لی ہے۔
ایک سخت مقابلے میں ، ٹرمپ نے منگل کے انتخابات میں ممکنہ 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے کم از کم 292 حاصل کیے، جس نے انہیں آسانی سے اس ضروری اکثریت سے ہمکنار کر دیا جس سے وہ 1890 کی دہائی میں گروور کلیولینڈ کے بعد، غیر متواتر ٹرمز جیتنے والے دوسرے امریکی رہنما بن گئے۔
78 سال کی عمر میں امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ نے بدھ کے اوائل میں فتح کا دعویٰ کیا جب انہوں نے فلوریڈا میں ایک ریلی میں اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ "یہ ایک ایسی تحریک تھی جسے اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا تھا ، اور صاف کہوں تو، مجھے یقین ہے کہ یہ اب تک کی سب سے بڑی سیاسی تحریک تھی۔"
ٹرمپ، جنہوں نے اپنی مہم میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ امریکہ میں قانونی کاغذات کے بغیر تارکین وطن کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیجیں گے، میکسیکو کے ساتھ " سرحدیں ٹھیک کرنے" اور "ہمارے ملک میں سب کچھ ٹھیک کرنے" کا وعدہ کیا۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک "مضبوط، محفوظ اور خوشحال امریکہ" کے لیے کام کریں گے۔
ساٹھ سالہ ڈیموکریٹک امیدوار ہیرس جو جولائی میں صدر جو بائیڈن کے دستبردار ہونے کے بعد دیر سے اس دوڑ میں شامل ہوئی تھیں ، امریکی صدارت کے لیے منتخب ہونے والی پہلی خاتون اور براک اوباما کے بعد امریکہ کی دوسری سیاہ فام صدر بننے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ معاونین کے مطابق ہیرس نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنےکےلیے بدھ کی سہ پہر ٹرمپ کو فون کیا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق کاملا ہیرس کے قریبی معاونین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دورانِ گفتگو کاملا ہیرس نے اقتدار کی پرامن منتقلی اور تمام امریکیوں کا صدر بننے کی اہمیت پر زور دیا۔
کاملا ہیرس کے معاونین کے مطابق ٹیلی فونک گفتگو چند منٹ تک جاری رہی۔
ٹرمپ اپنے خاندان کے نیو یارک رئیل اسٹیٹ گروپ کے ارب پتی سربراہ ہیں جو پہلی بار 2015 میں امریکی سیاسی منظر نامے پر ابھرے تھے۔
دوبارہ صدارت جیت کر ، انہوں نے رکاوٹوں کےایک سلسلےپر قابو پالیا ہے جس میں ان کے کچھ قریبی مشیروں کی جانب سے سخت مذمت بھی شامل ہے جنہوں نے صدر کے طور پر ان کی 2017-2021 کی مدت کے دوران خدمات انجام دیں تھیں۔
انہیں اپنی صدارت کے دوران ایوان نمائندگان کی جانب سے دوبار مواخذے کا سامنا ہوا جن میں بائیڈن سے 2020 کی شکست کو بلاک کرنے کی کوشش میں یو ایس کیپیٹل میں ہنگامے کو ہوا دینے کی کارروائی شامل تھی ، اگرچہ دونوں بار سینیٹ نے انہیں بری کردیا تھا۔
وی او اے نیوز۔