یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب عراق میں 30 اپریل کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جن کے پیشِ نظر ملک میں شیعہ سنی تفریق ایک بار پھر نمایاں ہوگئی ہے۔
واشنگٹن —
عراق میں ایک جلسے کے دوران ہونے والے پے در پے کئی بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق دھماکے مشرقی بغداد میں 'اعصائب اہلِ حق' نامی ایک شیعہ مسلح تنظیم کے جلسے کے دوران ہوئے جس میں 30 اپریل کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے تنظیم کے امیدواروں کا اعلان کیا جارہا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جلسے کے اختتام پر جب لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے تو جلسہ گاہ کے دروازے کے نزدیک بم پھٹا جس کے بعد ایک خود کش حملہ آور نے اپنی گاڑی لوگوں سے ٹکرادی۔
خود کش حملے کے چند منٹ بعد جائے وقوع پر تیسرا بم دھماکہ ہوا۔
'القاعدہ' سے منسلک تنظیم 'الدولۃ الاسلامیہ' نے انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
بیان میں تنظیم نے کہا ہے کہ اس نے یہ حملہ شیعہ لشکروں کی جانب سے سنی مسلمانوں کے "قتل، ان پر تشدد اور انہیں بے گھر کرنے اور ان کے عورتوں اور بچوں کے قتلِ عام" کی کارروائیوں کے جواب میں کیا ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب عراق میں 30 اپریل کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جن کے پیشِ نظر ملک میں شیعہ سنی تفریق ایک بار پھر نمایاں ہوگئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دھماکوں سے قبل جلسے میں 'اعصائب' کے سربراہ شیخ قیس نے 'الدولۃ الاسلامیہ' پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تحریک دہشت گردوں کے ہر حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
عراق کے بعض حلقے 'اعصائب' پر قتل و غارت اور لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں جب کہ تنظیم کے بعض جنگجو شام میں بھی صدر بشار الاسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ سنی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔
خیال رہے کہ 'اعصائب' کے سربراہ عراق کے معروف شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے قریبی ساتھی اور ان کی تنظیم 'مہدی آرمی' کے جنگجووں کے ایک گروہ کے کمانڈر تھے جنہوں نے بعد ازاں اپنی الگ تنظیم قائم کی تھی۔
عراق میں 2006ء اور 2007ء کے دوران ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران پیش آنے والے چند بد ترین حملوں کی ذمہ داری 'اعصائب' پر عائد کی جاتی ہے۔
حکام کے مطابق دھماکے مشرقی بغداد میں 'اعصائب اہلِ حق' نامی ایک شیعہ مسلح تنظیم کے جلسے کے دوران ہوئے جس میں 30 اپریل کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے تنظیم کے امیدواروں کا اعلان کیا جارہا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جلسے کے اختتام پر جب لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے تو جلسہ گاہ کے دروازے کے نزدیک بم پھٹا جس کے بعد ایک خود کش حملہ آور نے اپنی گاڑی لوگوں سے ٹکرادی۔
خود کش حملے کے چند منٹ بعد جائے وقوع پر تیسرا بم دھماکہ ہوا۔
'القاعدہ' سے منسلک تنظیم 'الدولۃ الاسلامیہ' نے انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
بیان میں تنظیم نے کہا ہے کہ اس نے یہ حملہ شیعہ لشکروں کی جانب سے سنی مسلمانوں کے "قتل، ان پر تشدد اور انہیں بے گھر کرنے اور ان کے عورتوں اور بچوں کے قتلِ عام" کی کارروائیوں کے جواب میں کیا ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب عراق میں 30 اپریل کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جن کے پیشِ نظر ملک میں شیعہ سنی تفریق ایک بار پھر نمایاں ہوگئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دھماکوں سے قبل جلسے میں 'اعصائب' کے سربراہ شیخ قیس نے 'الدولۃ الاسلامیہ' پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تحریک دہشت گردوں کے ہر حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
عراق کے بعض حلقے 'اعصائب' پر قتل و غارت اور لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں جب کہ تنظیم کے بعض جنگجو شام میں بھی صدر بشار الاسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ سنی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔
خیال رہے کہ 'اعصائب' کے سربراہ عراق کے معروف شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے قریبی ساتھی اور ان کی تنظیم 'مہدی آرمی' کے جنگجووں کے ایک گروہ کے کمانڈر تھے جنہوں نے بعد ازاں اپنی الگ تنظیم قائم کی تھی۔
عراق میں 2006ء اور 2007ء کے دوران ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران پیش آنے والے چند بد ترین حملوں کی ذمہ داری 'اعصائب' پر عائد کی جاتی ہے۔