لیویز حکام کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی زائرین کی بس سے ٹکرادی جس کے نتیجے میں زور دار دھماکا ہوا۔
واشنگٹن —
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایران سے واپس آنے والے زائرین کی ایک بس کے نزدیک دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے زائد ہوگئی ہے ۔ واقعہ منگل کی شام مستونگ کے علاقے درین گڑھ میں پیش آیا۔
لیویز حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہورہا ہے کہ دھماکا خود کش تھا۔ مقامی میڈیا میں آنے والے ایک بیان میں لیویز حکام کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی زائرین کی بس سے ٹکرادی جس کے نتیجے میں زور دار دھماکا ہوا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دھماکے سے متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ دھماکے سے کچھ دیگر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچاجو دھماکے کے وقت وہاں سے گزر رہی تھیں۔
حکام کے مطابق بس میں 30 سے زائد افراد سوار تھے جو ایران کے سرحدی شہر تافتان سے کوئٹہ آرہی تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد بس میں آگ لگ گئی تھی۔بعض اطلاعات کے مطابق دھماکے کے بعد فائرنگ کی بھی آوازیں سنی گئیں۔
مستونگ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے زائرین اکثر بسوں کے ذریعے کوئٹہ کے راستے آتے ، جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کے حملوں میں زیادہ تر کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کے افراد نشانہ بنتے رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبائی سیکریٹری داخلہ اسد گیلانی نے بتایا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں چار سیکورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ان کے مطابق دھماکے میں 80 سے 100 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔
واقعے کے خلاف شیعہ تنظیموں، بشمول علماء کونسل، مجلس وحدت المسلمین، تحفظ عزاداری کونسل، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جعفریہ الائنس نے بدھ کو ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔
کوئٹہ میں یکم جنوری کو بھی زائرین کی بس پراسی نوعیت کا حملہ کیا گیا تھا جس میں حملہ آور سمیت 2 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
ادھر وائس آف امریکہ کے نمائندے کے مطابق بس کے ساتھ چلنے والی لیویز اہلکاروں کی دو گاڑیوں کو بھی دھماکے سے نقصان پہنچا ہے۔
لیویز حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہورہا ہے کہ دھماکا خود کش تھا۔ مقامی میڈیا میں آنے والے ایک بیان میں لیویز حکام کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی زائرین کی بس سے ٹکرادی جس کے نتیجے میں زور دار دھماکا ہوا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دھماکے سے متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ دھماکے سے کچھ دیگر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچاجو دھماکے کے وقت وہاں سے گزر رہی تھیں۔
حکام کے مطابق بس میں 30 سے زائد افراد سوار تھے جو ایران کے سرحدی شہر تافتان سے کوئٹہ آرہی تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد بس میں آگ لگ گئی تھی۔بعض اطلاعات کے مطابق دھماکے کے بعد فائرنگ کی بھی آوازیں سنی گئیں۔
مستونگ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے زائرین اکثر بسوں کے ذریعے کوئٹہ کے راستے آتے ، جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کے حملوں میں زیادہ تر کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کے افراد نشانہ بنتے رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبائی سیکریٹری داخلہ اسد گیلانی نے بتایا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں چار سیکورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ان کے مطابق دھماکے میں 80 سے 100 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔
واقعے کے خلاف شیعہ تنظیموں، بشمول علماء کونسل، مجلس وحدت المسلمین، تحفظ عزاداری کونسل، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جعفریہ الائنس نے بدھ کو ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔
کوئٹہ میں یکم جنوری کو بھی زائرین کی بس پراسی نوعیت کا حملہ کیا گیا تھا جس میں حملہ آور سمیت 2 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
ادھر وائس آف امریکہ کے نمائندے کے مطابق بس کے ساتھ چلنے والی لیویز اہلکاروں کی دو گاڑیوں کو بھی دھماکے سے نقصان پہنچا ہے۔