ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو کہا کہ چین میں وہ درجنوں مظاہرین اب بھی حراست میں ہیں جنہیں گزشتہ سال حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کیا گیا تھا ۔ ادارے نے مزید کہا کہ کچھ افراد کے بارے میں معلومات نہیں ہیں اور وہ لا پتہ ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں چین کے مختلف شہروں میں مظاہرین جمع ہوئے تاکہ حکومت کی سخت گیر صفر کووڈ پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں ۔ وہ زیادہ سیاسی آزادیوں کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔حکمران کمیونسٹ پارٹی نے دسمبر میں وائرس پر قابو پانے کی اپنی کڑی حکمت عملی کو ختم کر دیاجس کے بعد نئے کیسز کے نتیجے میں اسپتال میں داخلے اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
مہم چلانے والوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس نے حالیہ ہفتوں میں اطلاع دی ہے کہ چینی حکام نے یونیورسٹی کے طلباء اور صحافیوں سمیت مظاہرین کو خاموشی سے حراست میں لے لیا ہے جن کی تعداد معلوم نہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کے روز بیجنگ پر زور دیا کہ وہ ’’وائٹ پیپر پروٹیسٹس‘‘ یا 'سفید کاغذاحتجاج ‘‘ کے مظاہروں میں گرفتار کیے جانے والے تمام افراد کو فوری طور پر رہا کرے اور ان پر عائد کیے گئے الزامات کو بھی ختم کیا جائے ۔
’’وائٹ پیپر پروٹیسٹس‘‘ میں ریاست کی طرف سے نافذ سینسرشپ کی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بغیر کسی تحریر کے کاغذ استعمال کیے گئے تھے ۔
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے علمبردار ایک غیر سرکاری ادارے سے وابستہ چین کے سینئر محقق یاکیو وانگ نے کہا کہ ’’چین میں نوجوان آزادی اور انسانی حقوق کے لیے بات کرنے کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’دنیا بھر کی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کواس سلسلے میں حمایت کا اظہار کرنا چاہیے اور چینی حکام سےگرفتار مظاہرین کی فوری رہا ئی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
چین کی حکومت اور سرکاری میڈیا نے مظاہروں کا بہت کم اعتراف کیا ہے جن میں سے کچھ بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں میں ہوئے ۔ براہ راست گرفتاریوں کا ذکربھی نہیں کیا گیاہے۔لیکن ملک کے اندر قانون نافذ کرنے والے ایک نگران ادارے نے نومبر میں کہا تھا کہ وہ معاشرتی نظم کو متاثر کرنے والی غیر قانونی مجرمانہ کارروائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے گا جو مظاہرین کے لیے ممکنہ انتباہ تھا۔
سیکیورٹی سروسز نے بدامنی کو دیکھتے ہوئے تیزی سے کاروائی کی ۔ان مظاہروں میں شرکاء کے دوستوں اور رشتہ داروں نے اے ایف پی کو تصدیق کی کہ بعد میں کئی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ایک ایل جی بی ٹی ایکٹوسٹ کی والدہ نے بتایا کہ ان کے بچے کو 30 روز تک حراست میں رکھا گیا اور پھر ضمانت پر رہائی ممکن ہوئی ۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ متعدد مظاہرین کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں اور قانونی طور پر ان کی پوزیشن کیا ہے ۔ ان میں 26 سالہ چاؤزیکشن بھی شامل ہیں جو ایک پبلشنگ ہاؤس میں ایڈیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں ۔انہیں سنکیانگ صوبے میں آتشزدگی کے ایک مہلک واقعے کےلیے منعقد کیے جانے والے ایک اجتماع میں شرکت کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا ۔
آتشزدگی کے اس واقعے کے بعد عوامی سطح پر بےچینی اور بد امنی پھیل گئی تھی ۔چاؤ کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر پہلے سے ریکارڈ کی گئی ایک وڈیو میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے متعدد دوستوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ چاؤ نے کہا کہ ’’ہمیں اس دنیا سے غائب نہ ہونے دیجئے گا۔ ہمیں گرفتار نہ ہونے دیجئے گا اور نہ ہی کسی من مانے جرم کے لیے قصور وار ٹھہرانے دیجئے گا‘‘۔
’’چائینیز ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز ‘‘ نامی اس کیمپین گروپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ جن گرفتاریوں کا علم ہے وہ تو ایک بڑے مسئلے کا معمولی حصہ ہے جب کہ گرفتاریوں کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا ۔گروپ نے خبردار کیا کہ مظاہرین کو جبری گمشدگیوں اور ایذا رسانی کا خطرہ ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)