ڈاکٹر محمد یونس نے وائس آف امریکہ میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’عالمی اقتصادی حالات کے مسائل پر چھوٹے منصوبوں کی مدد سے قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
واشنگٹن —
نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات اور بینکار ڈاکٹر محمد یونس نے غریبوں کی مدد پر روز دیتے ہوئے کہاہے کہ اس مقصد کے لیے کسی بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ محض ایک ڈالر سے اپنا پروگرام شروع کرسکتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے لیے ایک ڈالر بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس طرح کے کسی بھی منصوبے کے لیے آپ کو پہل کرنا ہوگی اور پہلا ڈالر آپ کو اپنی جیب سے دینا ہوگا۔ کیونکہ صرف اسی ڈالر میں دوسرے ڈالروں کو اپنی جانب کھینچنے کی طاقت ہوتی ہے جو آپ کا اپنا ہو اور جسے دینے میں آپ کا خلوص شامل ہو۔
ڈاکٹر محمد یونس نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کے آغاز میں بنگلہ سروس کی چیف رقیہ حیدر نے ڈاکٹر یونس کے لیے تعریفی اور خیر مقدمی کلمات ادا کیے اور وائس آف امریکہ آنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر محمد یونس نےعالمی اقتصادی حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک کو غربت سے منسلک مسائل کا سامنا ہے لیکن یہ کوئی بڑا یا پیچیدہ چیلنج نہیں ہے ۔ ان مسائل پر چھوٹے چھوٹے منصوبے شروع کرکے با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اپنے قائم کردہ گرامین بینک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نوبیل انعام یافتہ شخصیت نے کہا کہ وہ ان غریب خاندانوں کی مدد کے لیے، جن کا مقدر معمولی سرمائے سے سنور سکتا تھا، ایک منصوبہ لے کرآئے اور اس پروگرام کو اپنے پاس موجود معمولی رقم سے شروع کیا۔ ان کے نظریے نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند سو ڈالروں سے شروع کیے جانے والے پروگرام کادائرہ کئی ارب ڈالر تک پھیل گیا۔
ڈاکٹر محمد یونس نے 1976 میں اپنے پروگرام کی ابتدا محض 27 ڈالر سے کی۔ اور اس رقم کا بندوبست بھی انہوں نے اپنی جیب سے کیا۔ اس رقم سے انہوں نے گاؤں کی 42 خواتین کو چھوٹی سطح پر مختلف کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دیے۔
ان کا نظریہ تھا کہ مالی معاملات میں خواتین مردوں کی نسبت زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں اور وہ اپنے ذمے قرضے کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ آنے والے وقت نے ان کے تصور کی سچائی ثابت کر دی۔
محض 27 ڈالر سے شروع ہونے والا یہ پروگرام 2007 تک ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کےقرضے جاری کرچکا تھا اور اس کے ممبروں کی تعداد 74 لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔
ڈاکٹر محمد یونس کا پروگرام بڑا سادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے عمر بھر غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں کیونکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی بینک یا مالی ادارہ انہیں قرض دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ بینک کو اپنے قرضے کی وصولی یقینی بنانے کے لیے جائیداد یا اسی طرح کی دوسری ٹھوس ضمانتیں درکار ہوتی ہیں، جو غریبوں کے پاس نہیں ہوتیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار، مثلاً دودھ بیچنے کے لیے گائے یا بھینس کی خرید، یا چھوٹی سطح کے مرغی خانے یا اسی طرح کےکسی اورکاروبار کے لیے سرمایہ فراہم کردیا جائے تونہ صرف وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ اس سے قومی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور معیشت کا حجم وسیع ہو سکتا ہے۔
چھوٹے قرضوں کے لیے قائم کیا جانے والا ڈاکٹر محمد یونس کا گرامین بینک کسی مالی ضمانت کے بغیر خواتین کو قرضے جاری کرتا ہے اور اس کے قرضوں کی واپسی کی شرح 94 فی صد ہے ، جو دنیا کے کسی بھی بینک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 2006 میں نوبیل انعام دیا گیا ۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیاتھا کہ وہ انعامی رقم کے ایک بڑے حصے سے غریبوں کے لیے سستی اور معیاری خوراک تیار کرنے کا ادارہ قائم کررہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کے آغاز میں بنگلہ سروس کی چیف رقیہ حیدر نے ڈاکٹر یونس کے لیے تعریفی اور خیر مقدمی کلمات ادا کیے اور وائس آف امریکہ آنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر محمد یونس نےعالمی اقتصادی حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک کو غربت سے منسلک مسائل کا سامنا ہے لیکن یہ کوئی بڑا یا پیچیدہ چیلنج نہیں ہے ۔ ان مسائل پر چھوٹے چھوٹے منصوبے شروع کرکے با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اپنے قائم کردہ گرامین بینک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نوبیل انعام یافتہ شخصیت نے کہا کہ وہ ان غریب خاندانوں کی مدد کے لیے، جن کا مقدر معمولی سرمائے سے سنور سکتا تھا، ایک منصوبہ لے کرآئے اور اس پروگرام کو اپنے پاس موجود معمولی رقم سے شروع کیا۔ ان کے نظریے نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند سو ڈالروں سے شروع کیے جانے والے پروگرام کادائرہ کئی ارب ڈالر تک پھیل گیا۔
ڈاکٹر محمد یونس نے 1976 میں اپنے پروگرام کی ابتدا محض 27 ڈالر سے کی۔ اور اس رقم کا بندوبست بھی انہوں نے اپنی جیب سے کیا۔ اس رقم سے انہوں نے گاؤں کی 42 خواتین کو چھوٹی سطح پر مختلف کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دیے۔
ان کا نظریہ تھا کہ مالی معاملات میں خواتین مردوں کی نسبت زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں اور وہ اپنے ذمے قرضے کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ آنے والے وقت نے ان کے تصور کی سچائی ثابت کر دی۔
محض 27 ڈالر سے شروع ہونے والا یہ پروگرام 2007 تک ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کےقرضے جاری کرچکا تھا اور اس کے ممبروں کی تعداد 74 لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔
ڈاکٹر محمد یونس کا پروگرام بڑا سادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے عمر بھر غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں کیونکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی بینک یا مالی ادارہ انہیں قرض دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ بینک کو اپنے قرضے کی وصولی یقینی بنانے کے لیے جائیداد یا اسی طرح کی دوسری ٹھوس ضمانتیں درکار ہوتی ہیں، جو غریبوں کے پاس نہیں ہوتیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار، مثلاً دودھ بیچنے کے لیے گائے یا بھینس کی خرید، یا چھوٹی سطح کے مرغی خانے یا اسی طرح کےکسی اورکاروبار کے لیے سرمایہ فراہم کردیا جائے تونہ صرف وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ اس سے قومی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور معیشت کا حجم وسیع ہو سکتا ہے۔
چھوٹے قرضوں کے لیے قائم کیا جانے والا ڈاکٹر محمد یونس کا گرامین بینک کسی مالی ضمانت کے بغیر خواتین کو قرضے جاری کرتا ہے اور اس کے قرضوں کی واپسی کی شرح 94 فی صد ہے ، جو دنیا کے کسی بھی بینک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 2006 میں نوبیل انعام دیا گیا ۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیاتھا کہ وہ انعامی رقم کے ایک بڑے حصے سے غریبوں کے لیے سستی اور معیاری خوراک تیار کرنے کا ادارہ قائم کررہے ہیں۔