سائنسدانوں نےدیسی کھانوں کو خوشنما بنانے والے مصالے ہلدی سے کینسر کے علاج کی ایک انقلابی دوا تیار کی ہے جو چھاتی کے سرطان کے علاج میں بے حد مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
لندن —
ہلدی برسوں سے ہمارے روایتی کھانوں کا حصہ رہی ہے۔ پرانے زمانے میں ہلدی محض مصالے کا ایک جزو نہیں تھی بلکہ اسے بہت سی جسمانی تکالیف کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی بہت سے گھرانوں میں ہلدی سے جسم کی اندورنی اور بیرونی چوٹوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کی طرف سے بھی اب تک کئی تجربات میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہلدی کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتی ہے۔
سائنسدانوں نے دیسی کھانوں کو خوشنما بنانے والے مصالے ہلدی سے کینسر کے علاج کی ایک انقلابی دوا تیار کی ہے جو چھاتی کے سرطان کے علاج میں بے حد مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
سائنسدانوں کے مشاہدے میں یہ بات بہت عرصے سے ہے کہ ہلدی میں قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیائی مادے ’کرکیومن‘ میں کینسر زدہ خلیات کا علاج کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قسم قسم کا ہلدی والا سالن اپنی غذا میں شامل کرنے سے ہلدی کے فوائد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ،اس طرح زیادہ تر مصالحے ہمارے پیٹ میں موجود انتہائی طاقتور ہائیڈرو کلورک ایسڈ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔
’’لوئی ویل یونیورسٹی‘‘ کینٹیکی سے وابستہ محققین نے ہلدی سے بھرے، جسم میں تحلیل ہوجانے والے ایسے کیپسول تیار کیے ہیں جن کی لمبائی محض 2 ملی میٹر ہے اور ہر کیپسول میں کرکیومن کی مقدار 200 ملی گرام رکھی گئی ہے۔
’کینسر پری وینشن جرنل‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے ٹیومر زدہ چوہوں پر تجربہ کیا ۔
ایک گروپ کے چوہوں کے جسم میں ہر روز ہلدی سے تیار شدہ دو کیپسول داخل کئے گئے جبکہ دوسرے گروپ کے چوہوں کو روزمرہ کے ہلدی والے کھانے کھلائے گئے چار ماہ تک ان چوہوں میں ٹیومر کا سائز بڑھنے کی رفتار کا معائنہ کیا جاتا رہا نتیجے سے معلوم ہوا کہ غذا نے ٹیومر پر کوئی اثر نہیں دکھایا لیکن ہلدی سے تیار کردہ کیپسول لینے والے چوہوں کی رسولیوں کا سائز سکڑ کر ایک تہائی کم ہو گیا اورسرطان کے خلیات بننے کا عمل بھی بہت سست پڑ گیا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ علاج کا بہت بڑا اثر دیکھنے کے لیے خون میں کرکیومن کی مقدار اب بھی نا کافی تھی ۔
نتائج پر مبنی رپورٹ میں محققین نے بتایا کہ کرکیومن کو بڑے پیمانے پر اس کے اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی سوزش خصوصیات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن تجربے میں کر کیومن کو جسم میں داخل کرنے سے ٹیومر کا سائز چھوٹا ہو گیا بلکہ تیزی سے پھیلنے والے سرطان کے خلیات کی شرح بھی سست پڑ گئی لیکن غذائی اجزاء میں کرکیومن کا استعمال غیر موثر رہا۔
محققین نے کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ ہلدی اس لیے ایک موثر دوا ہو سکتی ہے کیونکہ ہلدی ان ہارمونز کےاثرات کو مسدود کر دیتی ہے جو سرطان کی گلٹیاں بننے میں مدد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سائنسدانوں کی ٹیمیں اس بات پر بھی غور کر رہی ہیں کہ چھاتی کے سرطان کے علاج کے لیے کرکیومن انجیکشن کی صورت میں کس حد تک موثر ثابت ہوسکتی ہے۔
دریں اثنا کینسر ریسرچ یوکے میں فی الحال آنتوں کے سرطان میں مبتلا مریضوں پر کر کیومن کے ساتھ کیمیو تھراپی علاج کی افادیت بڑھانے کے حوالے سے تجربات کئے جارہے ہیں جس کا نتیجہ آئندہ برس شائع کیا جائے گا ۔
ہلدی پاؤڈر سے الزائمر کی بیماری کی روک تھام میں ممکنہ فوائد پائے گئے ہیں اس کے علاوہ ہلدی جوڑوں کا درد اور جگر کی سوزش کے علاج کے لیے بھی بے حد فائدہ مند ثابت ہوئی ہے ۔
سائنسدانوں کی طرف سے بھی اب تک کئی تجربات میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہلدی کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتی ہے۔
سائنسدانوں نے دیسی کھانوں کو خوشنما بنانے والے مصالے ہلدی سے کینسر کے علاج کی ایک انقلابی دوا تیار کی ہے جو چھاتی کے سرطان کے علاج میں بے حد مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
سائنسدانوں کے مشاہدے میں یہ بات بہت عرصے سے ہے کہ ہلدی میں قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیائی مادے ’کرکیومن‘ میں کینسر زدہ خلیات کا علاج کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قسم قسم کا ہلدی والا سالن اپنی غذا میں شامل کرنے سے ہلدی کے فوائد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ،اس طرح زیادہ تر مصالحے ہمارے پیٹ میں موجود انتہائی طاقتور ہائیڈرو کلورک ایسڈ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔
’’لوئی ویل یونیورسٹی‘‘ کینٹیکی سے وابستہ محققین نے ہلدی سے بھرے، جسم میں تحلیل ہوجانے والے ایسے کیپسول تیار کیے ہیں جن کی لمبائی محض 2 ملی میٹر ہے اور ہر کیپسول میں کرکیومن کی مقدار 200 ملی گرام رکھی گئی ہے۔
’کینسر پری وینشن جرنل‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے ٹیومر زدہ چوہوں پر تجربہ کیا ۔
ایک گروپ کے چوہوں کے جسم میں ہر روز ہلدی سے تیار شدہ دو کیپسول داخل کئے گئے جبکہ دوسرے گروپ کے چوہوں کو روزمرہ کے ہلدی والے کھانے کھلائے گئے چار ماہ تک ان چوہوں میں ٹیومر کا سائز بڑھنے کی رفتار کا معائنہ کیا جاتا رہا نتیجے سے معلوم ہوا کہ غذا نے ٹیومر پر کوئی اثر نہیں دکھایا لیکن ہلدی سے تیار کردہ کیپسول لینے والے چوہوں کی رسولیوں کا سائز سکڑ کر ایک تہائی کم ہو گیا اورسرطان کے خلیات بننے کا عمل بھی بہت سست پڑ گیا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ علاج کا بہت بڑا اثر دیکھنے کے لیے خون میں کرکیومن کی مقدار اب بھی نا کافی تھی ۔
نتائج پر مبنی رپورٹ میں محققین نے بتایا کہ کرکیومن کو بڑے پیمانے پر اس کے اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی سوزش خصوصیات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن تجربے میں کر کیومن کو جسم میں داخل کرنے سے ٹیومر کا سائز چھوٹا ہو گیا بلکہ تیزی سے پھیلنے والے سرطان کے خلیات کی شرح بھی سست پڑ گئی لیکن غذائی اجزاء میں کرکیومن کا استعمال غیر موثر رہا۔
محققین نے کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ ہلدی اس لیے ایک موثر دوا ہو سکتی ہے کیونکہ ہلدی ان ہارمونز کےاثرات کو مسدود کر دیتی ہے جو سرطان کی گلٹیاں بننے میں مدد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سائنسدانوں کی ٹیمیں اس بات پر بھی غور کر رہی ہیں کہ چھاتی کے سرطان کے علاج کے لیے کرکیومن انجیکشن کی صورت میں کس حد تک موثر ثابت ہوسکتی ہے۔
دریں اثنا کینسر ریسرچ یوکے میں فی الحال آنتوں کے سرطان میں مبتلا مریضوں پر کر کیومن کے ساتھ کیمیو تھراپی علاج کی افادیت بڑھانے کے حوالے سے تجربات کئے جارہے ہیں جس کا نتیجہ آئندہ برس شائع کیا جائے گا ۔
ہلدی پاؤڈر سے الزائمر کی بیماری کی روک تھام میں ممکنہ فوائد پائے گئے ہیں اس کے علاوہ ہلدی جوڑوں کا درد اور جگر کی سوزش کے علاج کے لیے بھی بے حد فائدہ مند ثابت ہوئی ہے ۔