کچھ سال پہلے تک پاکستان میں سنیما کے احیاء کی باتیں سہانا خواب لگتی تھیں۔ لیکن، غالباً ’جیو فلمز‘ نے سب سے پہلے سنیما کے ’ریوائیول‘ کا نظریہ پیش کیا اور اس پر چلتے ہوئے ’خدا کے لئے‘ اور ’بول‘ جیسی کامیاب فلمیں دیں۔ ان فلموں کو دیکھ کر کچھ یقین ہوا کہ ملکی فلم انڈسٹری جلد اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہو سکے گی۔
ان فلموں نے ایک نیا اسٹینڈرڈ سیٹ کیا جس کے بعد ’وار‘، ’میں ہوں شاہد آفریدی‘ اور دیگر فلمیں آئیں جنہوں نے اس قدر کامیابی اور ریکارڈ بزنس کیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اب اسی ادارے کی نئی فلم ’دختر‘ ریلیز ہورہی ہے۔
اس فلم کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کمرشل فلموں جیسا ’ٹچ ‘ نہ ہونے کے باوجود فلم کو ریلیز سے پہلے ہی کئی بین الاقوامی ایوارڈز مل گئے ہیں، فلم دنیا بھر میں پاکستان سنیما کا ایک نیا اور مثبت امیج پیش کرنے میں پیش پیش ہے ۔ اس کامیابی کو دیکھ کر بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ’جیو فلمز‘ نے واقعی ملکی سنیما کو نئی زندگی بخشی ہے۔
بدھ کی شام نیوپلیکس سنیما کراچی میں فلم ’دختر‘ کا پریمئر ہوا جسے دیکھنے کے لئے فلم کی کاسٹ کے علاوہ دیگر فنکار بھی بڑی تعداد میں آئے تھے۔ ان میں آمنہ شیخ، سمیعہ ممتاز، محب مرزا، عدنان ٹیپو، نبیل، سنگیتا، علی خان، طاہر، نادیہ ملک، سفیناز، فاخر، صالحہ عارف شامل تھے۔ مختلف فنکاروں نے وی او اے کے نمائندے سے فلم سے متعلق تبادلہ خیال بھی کیا۔
فلم کی زیادہ تر شوٹنگ نادرن ایریاز میں کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی ایک ماں کے گرد گھومتی ہے جو اپنی بیٹی کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتی ہے اور پانچویں کلاس میں پڑھنے والی اپنی کم عمر بیٹی کی شادی ایک 60 سالہ عمر رسیدہ شخص سے کرنے کے خلاف ہے۔ اس شادی کو روکنے کے لئے اسے پل صراط طے کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ جس علاقے میں وہ رہتی ہے وہاں کم عمری کی شادیاں ایک عام بات ہے۔
بیٹی کو بچانے کی غرض سے اسے اپنا آبائی علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے جس کے لئے اسے کچھ لوگوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ لیکن طاقتور لوگوں کے خوف سے گھبرا کر کوئی آگے نہیں آتا۔ ایسے میں صرف ایک انجان ٹرک ڈرائیور (محب مرزا) ہی اس کی مدد کے لئے تیار ہوتا ہے۔ ماں بیٹی ٹرک پر سوار ہوکر اپنے علاقے سے نکل پڑتے ہیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظو رتھا۔ یہاں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور ماں بیٹی دونوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔
فلم کی فوٹو گرافی نہایت شاندار ہے۔ بعض کیمرہ اینگل تو غضب کے ہیں۔ ہر سین متوازن ہے۔ کہانی میں رشتوں اورانسانی احساسات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔
فلم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کہیں بھی لمبے چوڑے گانوں کو بے وجہ درمیان میں ڈال کر دیکھنے والوں کو بور کرنے کے بجائے سچویشن کے عین مطابق چھوٹے چھوٹے گانے خوبصورت انداز میں پکچرائز کیا گیا ہے۔
فلم میں کوئی آئٹم سانگ نہیں ہے۔ نہ ولگر کاسٹیمومز استعمال کئے گئے ہیں جیسا کہ اس دور کی دیگر فلموں میں دکھایا جاتا ہے بلکہ کرداروں کے کاسٹیموز حقیقی لگتے ہیں۔
لوکیشنز کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ لوکیشنز نے ہی فلم کی خوبصورتی کو سب سے زیادہ سامنے لانے کا موقع فراہم کیا۔ کچھ لوکیشنز تو ایسی ہیں جہاں پہلے کبھی فلمبندی نہیں ہوگی لہذا اس فلم سے پاکستان کی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔
فلم کے اداکار عدنان شاہ کا کہنا ہے کہ ’ان لوکیشنز پر پہنچنا بھی ایک مسئلہ ہوتا تھا۔ ایک تو منفی 10 ڈگری سے بھی زیادہ کا خون جمع دینے والا درجہ حرارت اس پر پہاڑی راستوں پر سفردوہری محنت تھی۔‘
فلم کی کاسٹ میں محب مرزا، سمیعہ ممتاز، آصف خان، عجب گل، عدنان شاہ ٹیپو، ثمینہ احمد، صالحہ عارف، عبداللہ جان اور عمیر رانا شامل ہیں۔
میوزک کی بات کریں تو راحت فتح علی خان کی قوالی سب پر بازی لے گئی جبکہ شفقت امانت علی کا گانا ’جینے چلے‘، حنا نصراللہ کا ’نینا‘ اور ’ابھی ساتھ چل‘ بہت اچھے اور عوام میں پسند کئے جارہے ہیں۔ گیت عمران رضا کے ہیں اور اسکے کمپوزر ساحر علی بگا ہیں۔
کراچی سے قبل فلم کا ورلڈ پریمئیر ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہوچکا ہے۔ فلم میں کوئی ایکشن سین نہیں، نہ فلمی انداز کا ڈرامہ ہے اور نہ ذہنی تناوٴ والی کہانی البتہ اس میں ایک دو جھول بھی ہیں۔ لیکن فلم مجموعی طور پر جان دار ہے۔
سمیعہ ممتاز کی اداکاری پوری فلم پر چھائی ہوئی ہے اور لگتا یوں ہے کہ جیسے وہ اسی کردار کے لئے فنکار بنیں ہوں۔ ان کی بیٹی کا کردار ادا کرنے والی نوعمر اداکارہ صالحہ عارف نے بھی پاکستانی فلموں کے نقاد کو خاموش کرادیا۔
آصف خان اور ثمینہ احمد اداکاری میں خاصا تجربہ رکھتے ہیں اب بھی ان کی مہارت فلم میں واضح نظر آتی ہے۔ عجب گل، محب مرزا اور عدنان شاہ بھی اپنے اپنے کرداروں سے انصاف کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔