واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کے مباحثے میں ماہرین نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ کے معاملے پر ہونے والے واقعات اورڈیورنڈ لائن پر افغان طالبان کا موقف پاکستان کے لیے باعث حیرت ہے۔ تاہم، برطانوی دور میں کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن دونوں مما لک کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ نہیں ہے بلکہ ایک علامت ہے۔
امریکی اور پاکستانی ماہرین نے جمعرات کو یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس ( یو ایس آئی پی) میں ہونے والے مباحثے میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے پاکستانی سرزمین پر حملوں کے محرکات اور ان کے چین اور پاکستان کے اقتصادی تعاون کےسی پیک منصوبوں پر اثرات کے تناظر میں بھی بات چیت کی۔
تھنک ٹینک کے "ٹی ٹی پی اور ڈیورنڈ لائن'کے موضوع پر منعقدہ آن لائن مباحثے میں واشنگٹن میں قائم اسٹمسن سینٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر ایلزبتھ تھریل کلیڈ نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کی طرف سے لگائی جانے والی باڑ کو اکھاڑنے کے واقعات کے بعد افغان طالبان کے موقف نے پاکستان کو حیران کردیا ہے۔
انہوں نےیاد دلایا کہ اس سے قبل 1990 کے عشرے میں بھی پاکستان نے تین بار کوشش کی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا معاملہ طے پا جائے لیکن اس وقت بھی طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایلزبتھ تھریل کلیڈ نے، جو ماضی میں پاکستان میں امریکہ کی سفارت کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں، کہا کہ اسلام آباد نے اس مسئلے پر زیادہ بات نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کی اعلیٰ قیادت کی سوچ تخریب کاروں سےمختلف ہے۔ دوسری طرف طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر بات چیت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے جوخطے میں عدم استحکام بڑھاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الااقوامی بات چیت میں ڈیورنڈ لائن کا ذکر نہیں ہوتا ہے۔ساتھ ہی جنوبی ایشیا کی ماہر نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو ٹھنڈا رکھنا دونوں اطراف کے حق میں ہے۔
اس موقع پر مباحثے کے میزبان رچرڈ اولسن نے، جو یو ایس آئی پی میں جنوبی ایشیا کے سینیئر مشیر ہیں اور پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں، کہا کہ جب پاکستان بنا تو افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کی وجہ سے نئے ملک کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی اور امریکہ کی طرف سے دہشت گردقراردی گئی تنظیم ٹی ٹی پی کے پاکستان میں کیے گئے حالیہ حملوں کےحوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایکسپریس ٹریبیون سے منسلک پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ طالبان کے اقتدار کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد جو حالات و واقعات سامنے آرہے ہیں وہ اسلام آباد کی توقعات کے برعکس ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو اس وقت افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے کامران یوسف نے کہا کہ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی فوری ترجیح داعش خراساں سے نمٹنا ہے البتہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان بات چیت کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
کامران یوسف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ٹی ٹی پی اور بارڈر کے مسائل میں الجھنا نہیں چاہے گا کیونکہ پاکستانی حکام کے مطابق ملک کو اور بھی بڑے مسائل سے نمٹنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان افغان سرحد کے پار فوجی کارروائی کرنے سے گریز کرے گا کیونکہ ایسا کرنے سے جانوں کے زیاں کا اندیشہ ہےاور حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے افغانستان کو واضح پیغام دیا ہے کہ سرحد پر باڑ کی تعمیر جاری رہے گی اور اسے مکمل کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
موجودہ حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے یو ایس آئی پی سے وابستہ ڈاکٹر اسفند یار میر نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو حملوں کی صورت میں بہت نقصان پنہچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جنگجو دونوں ہی افغانستان میں موجود ہیں اور دونوں کو افغان طالبان کی مثال سے تقویت ملی ہے ۔ انہوں نےکہا کہ ٹی ٹی پی تنظیم بلوچستان کے شورش پسند گروپوں کی حمایت کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نو ٹ کیا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کی موجودہ لہر سے اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے نتیجے میں بننے والی ایک بائی پراڈکٹ ہے یا یہ کہ ٹی ٹی پی کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ماہرین نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے بننے کے مقامی اسباب یعنی لوگوں کی شکایات اور مسائل بدستور موجود ہیں۔
اسفند یار میٹر نے کہا کہ ایک طرف تو ٹی ٹی پی کے حملے پاکستان کے لیے پریشانی کا موجب ہیں اور دوسری جانب افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو روکنے کے متعلق ایک مبہم سی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا افغان سرزمین کا پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ افغان طالبان کے انسداد دہشت گردی کے وعدے کھوکھلے ہیں کیونکہ انہوں نے اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو بیرون ممالک پر حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکیں گے۔
اسفند یار میر نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ گروپ آنے والے دنوں میں پاکستان میں مزید شدت کے ساتھ حملے کرسکتا ہے۔ ان کے خیال میں اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان چین سے حاصل کیے گئے ڈرونز کے ذریعے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں کر سکتا ہے اگرچہ ابھی یہ پالیسی واضح نہیں ہے۔
افغان طالبان کے متعلق پاکستان کی مستقبل کی پالیسی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی چین اور پاکستان کے اشتراک سے جاری سی پیک منصوبوں پر حملے کرتا ہے تو پاکستان افغان طالبان کے بارے میں اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے کا سو چ سکتا ہے۔
اس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے کامران یوسف نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس وقت ٹی ٹی پی کے پاس ماضی کی طرح بڑے پیمانے پر پاکستان کے شہروں میں حملے کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ٹی ٹی پی دہشت گرد گروپ امریکہ کے افغانستان میں چھوڑے ہوئے سازوسامان کو استعمال کر رہا ہے۔
چین کی اس ساری صورت حال پر سوچ کے حوالے سے کامران یوسف نے کہا کہ بیجنگ کے لیے صورت حال پریشان کن ہے کیونکہ مجید بریگیڈ نے چینی اہداف کو نشانہ بنا نے کی دھمکی دے رکھی ہے اور گر ایسا ہوتا ہے تو سی پیک کے منصوبوں کی پیش رفت میں خلل پڑسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اور پاکستان مل کر افغان طالبان پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے ان رپورٹس کا حوالہ دیا جن میں کہا گیا ہے کہ چین کی سرحد کے قریب سے حال ہی میں ٹی ٹی پی کے چار سو جنگجووں کو ہٹا لیا گیا تھا۔
مجموعی طور پر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کامران یوسف نے کہا کہ جس طرح امریکہ کے پاس افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے علاوہ کوئی نعم البدل نہیں، اسی طر ح پاکستان کے پاس بھی افغان طالبان سے تعاون جاری رکھنے کے سوا فی لحال کو ئی اور راہ نہیں ہے۔