امریکی ایوانِ نمائندگان میں انٹیلی جنس کی سلیکٹ کمیٹی کےایک رُکن ڈَچ رپرسبرگر کا کہنا ہےکہ ملک کے اندرجنم لینے والے دہشت گردی کےرجحانات سےنمٹنے کے سلسلے میں ہم امریکہ میں مقیم مسلم برادری سےرابطے میں ہیں۔
کانگریس مین رپرسبرگر نے، جِن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سےہے، وائس آف امریکہ کی ‘دیوا سروس’کے افتخارحسین سے ایک انٹرویو میں مسلم برادری کےکرداراورپاک-امریکہ تعلقات پر اظہارِ خیال کیا۔
کانگریس مین نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کےلیے ایک بہترین طریقہ انٹیلی جنس ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس سلسلے میں دنیا کے سارے ممالک سے شراکت داری ضروری ہے اِس لیے کہ امریکہ‘تنہا اِس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا اور اِس کے لیےعالمی سطح پر کوششیں درکار ہیں۔’
رپرسبرگر نے کہا کہ اِس وقت جو اہم بات ہے وہ یہ کہ اسلامی برادری کی قیادت سامنے آئے اور کہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے جو دہشت گرد ہیں۔ اُن کے الفاظ میں:‘اسلام اِس کا درس نہیں دیتا۔ اسلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ وہ خودکش حملہ کریں اور وہ کچھ کریں، جو کیا جارہا ہے۔
’
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں قیادت کی جانب سے یہ پیغام دیا جاناچاہیئے کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن کی پیروی کریں اور اُس کی تعلیمات پر عمل کریں اور یہ کہ انتہا پسندی قرآن کی تعلیم نہیں ہے۔
اِس سوال کے جواب میں کہ امریکہ میں بہت سے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں شبہے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کے خیال میں اُن سے کس طرح رابطہ کیا جانا چاہیئے، اُنھوں نے کہا کہ‘ہم اُن سے رابطہ کر رہے ہیں، نہ صرف پاکستانی بلکہ عام برادریوں کے ساتھ۔ آپ کو اُن سے رابطہ کرنا ہے اور اُن سے بات کرنی ہے۔’
اُن کے بقول، جو کچھ 9/11کے بعد ہواہےبد قسمتی سے اُس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں جو جاری نہیں رہنے چاہئیں۔ ہمیں امریکی حکومت کی حیثیت سے اُن افراد کی مدد کرنی چاہیئے جنھیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اِس بنا پر کہ اُن کا تعلق کہاں سے ہے۔
کانگریس مین رپرسبرگر نے مزید کہا کہ بتا سی غلط باتیں منظرِ عام پر آجاتی ہیں جو منفی باتیں ہیں۔ ہمیں حقیقت ِ حال کا علم ہونا چاہیئے۔ ہمیں تعلقات کی بہتری پر کام کرنا چاہیئے۔
اِس سوال کے جواب میں کہ وہ پاکستان کے ساتھ کس قسم کے رشتے چاہتے ہیں، کانگریس مین نے کہا کہ اُنھوں نے پاکستان کا متعدد بار دورہ کیا ہے جِن میں سرحدی علاقے بھی شامل ہیں اور وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ‘ہمیں شراکت داری کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کو وسائل اور تربیت مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے اِس جانب بھی توجہ دلائی کہ ابتدا میں پاکستان کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے وسائل نہیں تھے،لیکن، اُن کے بقول، اب ہم یہ چیزیں مہیا کر رہے ہیں۔