فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹرٹے نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں امریکی فورسز ان کے ملک کے جنوبی حصے سے واپس چلی جائیں۔ یہ فورسز مقامی فوجیوں کو انتہا پسندوں کے خلاف مشاورت فراہم کرتی آئی ہیں۔
نئے سرکاری افسران سے خطاب کرتے ہوئے ڈوٹرٹے نے الزام عائد کیا کہ امریکہ کی وجہ سے اس علاقے میں مسلمان زیادہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے امریکی فوجیوں کے نکل جانے کے لیے کوئی میعاد اور طریقہ کار تو متعین نہیں کیا لیکن ڈوٹرٹے کا کہنا تھا کہ ایسے میں کہ جب انتہا پسندی کے خلاف کارروائیاں تیز کی جا رہیں ہیں، امریکی، داعش سے وابستہ ابو سیاف گروپ کا اہم ترین ہدف ہیں۔
فلپائن کے صدر نے کہا کہ "ان اسپیشل فورسز کو جانا ہوگا۔۔۔ میں امریکہ کے ساتھ کوئی تناو نہیں چاہتا، لیکن انھیں جانا ہوگا۔۔۔ ان کی موجودگی سے صورتحال مزید کشیدہ ہوگی۔ اگر عسکریت پسندوں نے امریکیوں کو وہاں دیکھا تو وہ انھیں قتل کر دیں گے، تاوان کے لیے اغوا کریں گے اور پھر مار دیں گے۔"
امریکی محکمہ خارجہ نے صدر ڈوٹرٹے کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ "مددگار ثابت نہیں ہوگا۔"
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ "ہمیں فلپائن کی حکومت کی طرف سے اسے بارے میں سرکاری طور پر کسی اطلاع کا علم نہیں۔۔۔ہم فلپائن سے متعلق اپنے عزم پر قائم ہیں۔"
ڈوٹرٹے کے اس بیان سے ایک ہفتے قبل ہی امریکی صدر براک اوباما سے متعلق ان کے ایک "نامناسب" بیان کی وجہ سے دونوں صدور کی لاوس میں ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی گئی تھی۔
تاہم لاوس میں اجلاس کے موقع پر دونوں کے درمیان مختصر رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
رواں سال جون میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہی ڈوٹرٹے کے امریکہ سے تعلقات اتار چڑھاو کا شکار رہے ہیں اور وہ امریکہ کی سکیورٹی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی خارجہ پالیسی ترتیب دیں گے جو امریکہ پر انحصار نہیں کرے گی۔
امریکی حکام کہہ چکے ہیں کہ فروری 2015ء میں امریکی فورسز کے یہاں سے چلے جانے کے بعد سے اب وہاں محدود تعداد میں فوجی مشاورت کے لیے مامور ہیں۔