|
ویب ڈیسک۔ امریکی معیشت اچانک کاملا ہیرس کی معیشت بن گئی ہے جو ممکنہ ڈیوکریٹک صدارتی امیدوار کے لیے ایک بڑا موقع بھی ہو سکتی ہے اور ایک ممکنہ خطرہ بھی۔
ایک ہفتہ پہلےجب صدر بائیڈن صدارتی دوڑ سے الگ ہوگئے تو ہیرس نے معیشت کے بارے میں اپنا بیانیہ تیار کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بچوں میں غربت دور کرنے پر زور، لیبر یونینز کے فروغ، صحت اور بچوں کی نگہداشت پر خرچ میں کمی اور وقار کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے تحفظ پر زور دینا شروع کیا۔
وسکانسن، انڈیانا یا ٹیکساس میں اپنی تقریروں میں انہوں نے ایک مرتبہ بھی لفظ افراطِ زر استعمال نہیں کیا۔ وہ بڑا اقتصادی چیلنج جس نے بائیڈن انتظامیہ کو پریشان کر رکھا ہے اور انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنے ریمارکس میں مسلسل یہ ذکر کریں کہ وہ ووٹرز کے اس درد کو محسوس کرتے ہیں کہ کیسے انہیں سودا سلف، پٹرول، رہائش اور کاروں کے بڑھتے اخراجات پورے کرنے پڑ رہے ہیں۔
ہیرس مستقبل میں خود جو دیکھ رہی ہیں اس کو زیادہ ترجیح دے رہی ہیں۔
"گزشتہ جمعرات ہیرس نے امیریکن فیڈریشن آف ٹیچرز سے خطاب میں کہا، " مستقبل کے ہمارے تصور میں ہم ایک ایسا مقام دیکھتے ہیں جہاں ہر شخص کے پاس نہ صرف گزر اوقات بلکہ ترقی کرنے کا موقع ہو ۔ کوئی بچہ غربت میں پروان نہ چڑھے، جہاں ہر سینئیر وقار کے ساتھ ریٹائر ہو اور جہاں ہر ورکر کو یونین میں شامل ہونے کی آزادی ہو۔"
لیکن ریپبلکنز نے فوراً ہی افراظِ زر کے لیے ہیرس کو الزام دینے کی کوشش کی جو وہ اس سے پہلے بائیڈن کو دیتے آئے تھے۔وہ ڈیمو کریٹک انتظامیہ کے تحت قیمتوں میں اضافے کے بڑھتے ہوئے اثر پر زور دے رہے ہیں۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بائیڈن کے منصب سنبھالنے کے بعد سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں 19.2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اوسط فی گھنٹہ آمدنی 16.9 فیصد بڑھی ہے۔
ریپبلکن لیڈر یہ بتائے بغیر کہ انہوں نے نائب صدر ہونے کے سوا ایسا کیونکر کیا،کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ افراطِ زر میں ہیرس کا ہاتھ ہے۔
سینٹ میں اقلیتی لیڈر، کینٹکی کے ریپبلکن سینیٹر مچ میکانل نے کہا،"نائب صدر ہیرس پر اس انتظامیہ کے ریکارڈ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔گزشتہ چار برس کی ناکامیوں پر ان کی انگلیوں کے نشان ہیں۔"
SEE ALSO: امریکہ: الیکٹرک گاڑیاں چارج کرنے کے نیٹ ورک کا ’بائیڈنومکس‘ سے کیا تعلق ہے؟ہیرس کے ساتھ کام کرنے والے ماضی کےاور موجودہ عہدیداروں نے اپنے انٹرویوز میں کہا ہے کہ توقع ہے کہ افراطِ زر کے بارے میں ان پر تنقید زیادہ عرصہ نہیں رہے گی کیونکہ بہت سے ووٹروں کے لیے وہ ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک جو بائیڈن کے اوول آفس میں آٹھ برسوں کے بعد ایک تازہ آواز ہیں۔
اب وقت ہے کہ ہیرس اقتصادی امور پر اپنی پالیسیاں بیان کریں۔
بعض عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیونکہ انہیں سیاسی معاملات پر گفتگو کی اجازت نہیں تھی، بتایا کہ امکان ہے کہ ہیرس، بائیڈن کے 2025 کا مجوزہ بجٹ اور اس میں کارپوریٹ ٹیکس ٹرمپ کے مقرر کردہ 21 فیصد سے بڑھا کر 28 فیصد کرنے کی تجویز برقرار رکھیں گی۔
ان کے ڈیمو کریٹک امیدوار کے طور پر ابھرنے کی خبر معیشت کی مثبت خبر کے ساتھ ہی آئی ہے۔
کامرس ڈیپارٹمنٹ نے گزشتہ جمعرات کو کہا کہ دوسری سہ ماہی میں معیشت میں ترقی کی رفتار 2.8 فیصد رہی۔ جمعے کے روز محکمے نے اطلاع دی کہ ذاتی اخراجات کے لحاظ سے افراطِ زر کی شرح میں سالانہ 2.5 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ ان مالی منڈیوں میں توقع کی جا رہی ہے کہ 'فیڈرل ریزرو' کی شرحِ سود میں ستمبر میں کمی واقع ہوگی۔
وہ لوگ جو ہیرس کے ساتھ کام کر چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کیلیفورنیا میں کئی سال تک پراسیکیوٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے انہوں نے انصاف و مساوات کا جو احساس قائم رکھا تھا وہ ان کی اقتصادی پالیسی کے نظریات میں بھی مرکزی نکتہ ہوگا۔
یاسمین نیلسن ہیرس کی سابق سینئیر مشیر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،"وہ دل سے ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کاروبار اچھے چلیں۔لیکن وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں پلڑا انہیں کی طرف رہا۔ ان کے نظریے کے مطابق وہ سب کے لیے یکساں مواقع چاہتی ہیں۔"
ٹرمپ اور ان کے ساتھی امیدوار، اوہائیو کے ریپبلکن سینیٹر جے ڈی وینس، ہیرس کو بائیڈن سے زیادہ آزاد خیال ظاہر کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ کیلیفورنیا کی سابق سینیٹر، شمسی، ہوا کی اور دیگر قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی حمایت میں فوسل فیول کے استعمال کو مزید محدود کر دیں گی۔
ٹرمپ نے نارتھ کیرولائنا میں بدھ کو ایک ریلی سے خطاب میں ہیرس کو امریکی تاریخ کی سب سے نا اہل اور انتہائی بائیں بازو کی نائب صدر قرار دیا۔
وینس نے جمعے کو میگن کیلی کے پروگرام سیرئس ایکس ایم میں ایک انٹرویو کے دوران ان کی پالیسیوں کو ہدف بنایا۔
انہوں نے کہا، "ہم ایسے لوگوں کو اقتدار میں نہیں آنے دے سکتے جو امریکی مینو فیکچرنگ اور توانائی کی معیشت کو تباہ کرنے جا رہے ہوں۔ یہ اس وقت اور بھی بد تر ہو جائے گا جب آپ کوئی ایسا شخص لے آئیں جو بائیڈن سے بھی زیادہ آزاد خیال ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ انتخابی مہم نے 2020 کی ڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی کے لیے ان کی مختصر مدت کی دوڑ کے دوران ہیرس کے بیانات حاصل کر لیے ہیں۔ تب انہوں نے سی این این پر کہا تھا کہ وہ پلاسٹک کے سٹراز، سمندر کے کنارے تیل کی کھدائی اور تیل اور قدرتی گیس کے لیے چٹانوں سے تیل الگ کرنے کا فریکنگ نامی طریقہ استعمال کرنے پر پابندی کے حق میں ہیں، جو پنسلوینیا کی سوئنگ ریاست میں ایک متنازعہ موقف ہے۔
ریپبلکن قانون ساز یہ بھی کہتے ہیں کہ ہیرس ٹیکسوں میں اضافہ کر دیں گی جبکہ بائیڈن کے 2025کے بجٹ کے تحت ایسا صرف دولتمند گھرانوں اور کارپوریشنز کے لیے کیا جائے گا۔
ہیرس کی انتخابی مہم کا کہنا ہے کہ وہ فریکنگ پر پابندی کی حمایت نہیں کر تیں۔ 2020 کی نائب صدر کی ڈیبیٹ کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ زور دے کر کہا کہ بائیڈن فریکنگ ختم نہیں کریں گے۔
دی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق عالمی وباء کے دوران کمی آنے کے بعد بائیڈن کے دورِ صدارت میں قدرتی گیس اور تیل کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔لیکن ریپبلکن پارٹی جو چاہتی ہے، بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیاں اس سے زیادہ پابندی لگاتی ہیں۔
ہیرس کے لیے بڑا خطرہ یہ ہے کہ افراطِ زر کی مسلسل موجودگی میں ووٹر معیشت کے بارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں۔ بہت سی مالیاتی کمپنیوں نے الیکشن کے تجزیے کے لیے جو اقتصادی ماڈلز استعمال کیے ان کی بنیاد موجودہ پارٹی تھی نہ کہ امیدوار خود جیسا کہ اس وقت نظر آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مشاورتی کمپنی آکسفورڈ اکنامکس نے پیر کے روز ایک تجزیے میں کہا کہ امکانات ٹرمپ کے حق میں ہیں۔یہ پیش گوئی ان ماڈلز کی بنیاد پر کی گئی جو اقتصادی اعداد و شمار استعمال کرتے ہیں۔ان میں ضروری نہیں کہ ابارشن اور گن کنٹرول جیسے معاشرتی مسائل کا جائزہ لیا جائے جن کے بارے میں ڈیمو کریٹس کا کہنا ہے کہ ان سے الیکش میں انہیں مدد ملے گی۔
تجزیے میں زور دیا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر غیر یقینی پائی جاتی ہے اور باور کروایا گیا کہ آئندہ مہینوں میں بہت کچھ ہو سکتا ہے اگرچہ یہ نتیجہ نکالنا بہت کھلی اور صاف بات ہے کہ افراطِ زر نائب صدر کے لیے اب بھی ایک مشکل ہے۔
برنارڈ یاروس آکسفورڈ اکنامکس میں اکانومسٹ ہیں، وہ کہتے ہیں،"مجھے نہیں یقین کہ ہیرس معیشت کے بارے میں ووٹروں کی سوچ میں کافی تبدیلی لا سکیں گی۔ 2021 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر افراطِ زر کے وقت بھی وہ صدرات میں تھیں جس کا بوجھ اب بھی ان کے ساتھ ہے۔ تب افراطِ زر میں اضافے کے دوران بائیڈن کی طرح ان کی منظوری نے بھی لوگوں کو متاثر کیا تھا۔
(اس مضمون میں تفصیلات اے پی سے لی گئیں)