دنیا بھر میں لوگ ہفتے کی اپنی شام کے 60 منٹ زمین کے نام کرتے ہوئے برقی قمقموں کو بند کررہے ہیں ۔ سورج کے گرد زمین کی گردش کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں غروب آفتاب کے بعد اندھیرا ہورہاہے، برقی قمقے روشن ہونے کی بجائے بجھتے جارہے ہیں۔
اس دن کا مقصد زمین کے ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی عادات میں اس انداز میں تبدیلی لانا ہے جس کے ذریعے قدرتی وسائل بچانے میں مدد مل سکے۔
دنیا کے 134 ممالک کے افراد اپنے مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے ایک گھنٹے کے لیے بجلی کےبلب بجھا کر ارتھ آور میں حصہ لے رہے ہیں۔
ہفتے کی رات ساڑھے آٹھ بجتے ہی آسٹریلیا کے شہر سڈنی کا مشہور اوپرا ہاؤس، پیرس کا ایفل ٹاور اور نیویارک کی بلندوبالا عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سمیت تمام عمارتیں تاریکی میں ڈوب گئیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ڈائریکٹر جم لی پے کا کہناہے کہ ہر سال ارتھ آور میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس چیز کی نشان دہی کرتی ہے کہ عام افراد اور حکومتیں یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ اپنے دیر پا اور محفوظ مستقبل کے لیے ہر ایک کو اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ بھارت جیسی ترقی پذیر معیشتوں کے عوام میں ارتھ آور کے شعور میں اضافہ ہورہاہے ، اور یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ایسے ممالک ہیں جن کا عالمی امور میں عمل دخل مسلسل بڑھ رہاہے ۔
پہلا ارتھ آور 2007ء میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں منایا گیا تھا۔