عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ایبولا وائرس سے مرنے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار کے نزدیک جاپہنچی ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق وائرس اب تک 4922 افراد کی جان لے چکا ہے جن میں سے بیشتر مغربی افریقہ کے تین ملکوں – گنی، لائبیریا اور سیرالیون – میں ہلاک ہوئے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ایبولا سے ہونے والی کل ہلاکتوں میں سے 4912 افراد وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ان تین ملکوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق دنیا کے آٹھ ملکوں میں وائرس کے اب تک 10141 تصدیق شدہ مریض سامنے آچکے ہیں۔
عالمی ادارے کے مطابق یہ اعداد و شمار جمعرات تک کے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ہفتے کو پانچ ہزار سے تجاوز کرگئی ہو۔
'ڈبلیو ایچ او' نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ایبولا سے مرنے والے افراد کی درست تعداد بیان کی گئی تعداد سے گنی میں ڈیڑھ گنا، لائبیریا میں ڈھائی گنا اور سیرا لیون میں دو گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق غربت کا شکار ان ملکوں میں وائرس سے متاثرہ کئی افراد اسپتالوں اور طبی مراکز تک پہنچنے سے قبل ہی یا تو دم توڑ جاتے ہیں یا ان کے رشتے دار ان کا دیسی علاج کرنے کی کوشش میں گھروں ہی پر رکھتے ہیں اور حکام کو ان کے مرض کی اطلاع نہیں دیتے۔
جمعے کو وائرس نے گنی کے پڑوسی ملک مالی میں بھی ایک دو سالہ بچی کی جان لے لی تھی جو اس مغربی افریقی ملک میں ایبولا سے ہونے والی پہلی ہلاکت ہے۔
سفارتی حکام اور بین الاقوامی اداروں نے خانہ جنگی اور غربت کا شکار ملک مالی کی ایبولا سے بچاؤ اور اس پر قابو کی صلاحیت پر شبہات کا اظہار کیا ہے ۔
حکام کو خدشہ ہے کہ اگر مالی حکومت کی فوری مدد نہ کی گئی تو وائرس بے قابو ہو کر بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ مالی میں ایبولا سے ہلاک ہونے والی بچی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گنی سے بس کے ذریعے مالی پہنچی تھی۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ بس کے دیگر مسافر بھی وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ مالی میں حکام بچی سے رابطے میں آنے والے 43 افراد کی پہلے ہی نگہداشت کر رہے ہیں اور ان کی صحت کی صورتِ حال پر مسلسل نظر رکھی جارہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایبولا کا اگلا نشانہ افریقی ملک آئیوری کوسٹ بن سکتا ہے جہاں حکام نے خطے کے دیگر ملکوں میں وائرس کی موجودگی کے بعد ملک کے داخلی اور خارجی راستوں کی نگرانی سخت کردی ہے۔