افغانستان میں موسم سرما کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ ملکی معشیت سنورنے کا نام نہیں لے رہی، امدادی کام رکا ہوا ہے اور انسانی بحران زوروں پر ہے۔ طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا، ایسے میں غیرسرکاری امدادی تنظییں اور اقوام متحدہ کے ادارے انتباہ کر چکے ہیں کہ بے روزگاری، غربت اور بھوک بڑھتی جا رہی ہے، اگر اس صورت حال کا جلد مداوا نہ ہوا تو ملک کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے، جنھیں سنبھالنا مشکل ترین مرحلہ ہو گا۔
دوسری جانب افغانستان میں آئے دن بم دھماکے ہو رہے ہیں، جن میں داعش خراسان کو موجب الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کئی بار وہ ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکے ہیں۔
ایجنسی فرانس پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں 20 سال تک جنگ جاری رہی۔ اس دوران متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے اور کئی گھر اجڑے۔ اب اعلانیہ جنگ و جدل جاری نہیں ہے لیکن ماضی کے اثرات ہر شہر اور ہر گاؤں میں موجود ہیں، جیسا کہ بارودی سرنگوں کا سنگین معاملہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صوبہ ہلمند کے ضلع ناد علی میں بارودی سرنگوں کا معاملہ کتنا سنگین ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد شہر واپس آنے والے افراد نے دیکھا کہ ایک جنوبی گاؤں کے کرکٹ کے میدان کے گرد بڑے پتھر رکھے ہوئے ہیں جن کے اوپر سرخ اور سفید رنگ کیا ہوا ہے۔
بتایا گیا کہ سفید رنگ کا علاقہ محفوظ ہے جہاں بچے کھیل سکتے ہیں، جب کہ سرخ رنگ والے حصے کے اندر بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں یا گولہ بارود رکھا ہوا ہے، جس سے چار عشروں تک لڑائی میں ہزاروں افغان ہلاک ہو چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
معلوم ہوا کہ صوبہ ہلمند کے ناد علی کے دیہات چند ماہ قبل آخری بار، خصوصی طور پر کابل پر قبضے کے معرکے کے دوران، لڑائی کی اگلی صف بنے ہوئے تھے، جب طالبان اور مغربی حمایت یافتہ حکومت کی افواج آمنے سامنے تھیں۔ یہاں دو ماہ تک آگے بڑھنے اور روکنے کی تگ و دو جاری رہی، جب با الآخر اگست کے وسط میں اسلام نواز گروپ نے اقتدار کا کنٹرول سنبھالا۔
اے ایف پی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جب یہاں کے اصل باسی اپنے علاقے کی جانب لوٹ کر آئے تو انھوں نے دیکھا کہ گاؤں کے اسکول کی دیواروں پر فائرنگ کے نشان ہیں، اس کی چھت دھوئیں سے سیاہ ہے، اور بچوں کے جھولوں کی جگہ محض دھات کے چندنشانات باقی ہیں۔
افغانستان میں بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے کے کام سے وابستہ ایک غیر سرکاری ادارے، 'ہیزارڈس ایریا لائف سپورٹ آرگنائزیشن (ہالو) ٹرسٹ' کے ایک مقامی رابطہ کار، جمعہ خان نے بتایا کہ اس لڑائی کے دوران بے دردی کے ساتھ علاقے میں بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ یہاں تک کہ گاؤں کی عمارتوں اور دروازوں کے نیچے، کھڑکیوں کے باہر بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں، جہاں سے کوئی بچ کر نہیں نکلتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس ماہ ناد علی کے دورے کے دوران، جمعہ خان نے اے ایف پی کے نمائندے کو بتایا کہ ''کمروں کے اندر اور باہر سڑک کی جانب بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں''۔
اقوام متحدہ کے ادارے، مائین ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کے مطابق، سال 1988ء سے اب تک بچھی ہوئی بارودی سرنگوں اور گولہ بارود کی زد میں آ کر تقریباً 41،000 افغان سویلین ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے دو تہائی تعداد بچوں کی ہے، جنھوں نے کھیلتے ہوئے کوئی شے اٹھائی، دھماکہ ہوا اور وہ اس کی زد میں آ گئے۔
'ہالو ٹرسٹ کا آغاز سال 1988میں ہوا جب ملک پر سابق سویت یونین کا قبضہ تھا اور بارودی سرنگوں اور گولہ بارود کے بے جا استعمال سے بچنے کے لیے صفائی کے کام کا آغاز کیا گیا۔ یہ ادارہ ملک میں تب سے کام کر رہا ہے۔ سال 1997ء میں بارودی سرنگوں کا بے جا استعمال کو روکنے سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدہ طے ہوا، جس کنویشن کی افغانستان نے 2002ء میں توثیق کی۔ ماہرین کے مطابق، تب سے ملک کے وسیع علاقے پر بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام جاری رہا ہے جو ابھی تک نہیں رکا۔
تیس سال سے زیادہ عرصے کے دوران کئی لڑائیاں ہوئیں اور اب طالبان ایک بار پھر اقتدار پرقابض ہوئے، ایک بار پھر زیر زمیں بارودی سرنگیں اور گولہ بارود بچھانے کے مبینہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، اس بار اسلام نواز گروپ اور ان کے حکومت چھوڑنے والے مخالفانہ حلقوں نے ایک دوسرے کے خلاف یہی عمل دہرایا۔
'ہالو ٹرسٹ' کی بانی شہزادی ڈیانا تھیں، جن کی زیر سرپرستی چلنے والی عطیہ دہندہ تنظیم نے اس کی مالی اعانت کی تھی۔ اس تنظیم نے نئے طالبان حکام کے ساتھ اس سال ستمبر میں ایک سمجھوتہ طے کیا تاکہ تنظیم کے 2500 سے زائد افغان ملازمین کام پر واپس آ سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ناد علی میں اس وقت طالبان جنگجو ہالو ٹرسٹ کے کارکنان کی رہنمائی کر رہے ہیں کہ انھوں نے یہ مہلک جال زیر زمین کہاں کہاں پھیلایا۔ جمعہ خان کے مطابق، اس الزام سے بچنے کے لیے کہ انھوں نےبھی اس اوچھے ہتھکنڈے میں حصہ لیا تھا، طالبان جنگجو ہالو کے کارکنان کو بتا رہے ہیں کہ بارودی سرنگیں کہاں کہاں بچھی ہوئی ہیں۔ ان کا بس چلے تو اپنے ہاتھوں سے انھیں صاف کر دیں، تاکہ اس الزام سے بچ سکیں۔ لیکن یہ کام خطرے سے خالی نہیں ہے۔
بقول ان کے،علاقے کو بارودی سرنگوں سے صاف کرنے کا کام تیزی سےجاری ہے، جس دوران دھماکوں کے کئی واقعات میں کئی دیہاتیوں کی جانیں گئیں یا وہ زخمی ہوئے۔ دو ماہ قبل، ایک مقامی استاد کی بیوی کی ٹانگیں اس وقت ضائع ہوئیں، جب انھوں نے اپنے گھر کا ایک دروازہ کھولا اور دھماکہ ہوا۔
بسم اللہ خان نامی استاد نے بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی دردناک تھا، جسے میں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا۔ بچوں کی چیخ و پکار سے میرا دل دہل گیا۔ اب میں اکیلا رہ گیا ہوں اور یہ صدمہ برداشت سے باہر ہے۔
اس دن سے اس گاؤں اور اس اسکول کو بارودی سرنگیں صاف کرنے کی 'اولین ترجیح' کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع کے مطابق، معاشی صورت حال کی ابتری کی حالت یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے نتیجے میں غریب تو غریب متوسط درجے کے شہریوں کو بھی فاقہ کشی کی صورت حال درپیش ہے۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں جب فرشتہ صالحی اور ان کا خاندان بہتر زندگی گزار رہا تھا۔ ان کے شوہر کو روزگار حاصل تھا اور اچھی تنخواہ ملتی تھی۔ وہ اپنی بیٹیوں کو نجی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ لیکن، اب طالبان کا دور آ گیا ہے، ان کے شوہر بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اس وقت ان کا خاندان ان ہزاروں، لاکھوں افغان باشندوں کی طرح عالمی ادارہ خوراک کی امداد اور نقدی پر گزر بسر کر رہا ہے۔
ان کی 17 سالہ بیٹی، فاطمہ اب اسکول نہیں جا رہیں۔ وہ نہ صرف ان کی اسکول فیس نہیں دے سکتیں بلکہ طالبان نے بچیوں کو سرکاری اسکول تک جانے سے بھی روک دیا ہے۔ فرشتہ صالحی کے بقول، میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتی، بس یہ چاہتی ہوں کی میرے بچے لکھ پڑھ لیں۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، تین کروڑ 80 لاکھ آبادی والے اس ملک کی 22 فی صد آبادی کو بھوک کے بحران نے گھیر لیا ہے، جب کہ مزید 36 فی صد کو خوراک کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، یہاں تک کہ لوگوں کے پاس اناج خریدنے کے لیے رقم بھی نہیں ہے۔
[اس میں شامل مواد ایجنسی فرانس پریس اور ایسو سی ایٹڈ پریس کی خبروں سے لیا گیا]