جلسوں میں نازیبا زبان کے استعمال پر الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور متحدہ مجلسِ عمل کے صدر مولانا فضل الرحمان کو حلف نامہ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے پرویز خٹک کے انتخابی حلقے کے نتیجے کا نوٹی فکیشن بھی اپنے فیصلے سے مشروط کر دیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے ہفتے کو مولانا فضل الرحمان، پرویز خٹک اور سردار ایاز صادق کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران مخالفین کے خلاف نازیبا زبان کے استعمال کی شکایات کی سماعت کی۔
پرویز خٹک کی جانب سے الیکشن کمیشن میں ان کے وکیل بابر اعوان پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ تحریکِ انصاف کے رہنما شرم ناک کام کرنے کے بعد بابر اعوان کو آگے کیوں کردیتے ہیں؟ اس پر بابر اعوان مسکرانے لگے۔
چیف الیکشن کمشنر نے بابر اعوان سے سوال کیا کہ پرویز خٹک نے پشتو میں جو تقریر کی کیا آپ نے سنی ہے؟ وہ ہنسنے کی نہیں رونے کی بات ہے۔
سردار رضا نے ہدایت کی کہ پرویز خٹک بیانِ حلفی جمع کرائیں۔ الیکشن میں نتیجہ کچھ بھی ہو، اس مقدمے کے فیصلہ سے مشروط ہوگا۔
سماعت کے دوران سردار ایاز صادق کے وکیل سے مکالمے کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اپنے الفاظ پر ندامت تو ہونی چاہیے۔
کمیشن کے خیبر پختونخوا سے رکن نے سوال کیا کہ بطور اسپیکر انہوں نے ایسی زبان کیوں استعمال کی؟ جس پر ایاز صادق کے وکیل نے الیکشن کمیشن کو یقین دہانی کرائی کہ ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ ہم آئندہ کے لیے یقین دہانی نہیں مانگ رہے۔ آگے بھی انہوں نے ایسا کیا تو ہم نوٹس لیں گے۔
الیکشن کمیشن کے روبرو مولانا فضل الرحمان کے وکیل کامران مرتضیٰ پیش نہ ہوسکے۔ ان کے معاون وکیل نے کمیشن کے ارکان کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کے وکیل کامران مرتضی کو تاخیر سے نوٹس موصول ہوا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پرویز خٹک، ایاز صادق اور مولانا فضل الرحمان کے جواب مسترد کرتے ہوئے تینوں سیاسی رہنماؤں کو بیانِ حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ معاملے کی مزید سماعت 9 اگست کو ہوگی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کو بھی نازیبا زبان کے استعمال پر طلب کیا تھا لیکن ان کی جانب سے بھی وکیل پیش ہوئے جنہوں نے الیکشن کمیشن میں تحریری یقین دہانی جمع کرانے کی حامی بھری تھی۔
انتخابی مہم میں تیزی آتے ہی امیدواران کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور تلخ زبان کے استعمال کی شکایات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے تاہم الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی ضابطۂ اخلاق پر سختی سے عمل کرانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔