|
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کے مطالبے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے قانونی ٹیم کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔
سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا تھا۔
'کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی'
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا تھا جس کے خلاف پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا جس نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک جماعت کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔
مخصوص نشستوں کا معاملہ کیا ہے؟
رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو بطور جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ پی ٹی آئی آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔
انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا جن کی بڑی تعداد انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ بعدازاں تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا۔
جب خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو کمیشن نے وہ نشستیں جو سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنا تھیں وہ دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔
سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم عدالت نے کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس کے خلاف سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کیس کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی اسے ملنے والی 78 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔
الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل نہیں۔ کیوں کہ پارٹی نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔